عراقی وزیراعظم کون، ریفرنڈم بتائے گا : مقتدیٰ الصدر
3 اپریل 2010عراق میں حالیہ انتخابات میں تیسرے نمبر پر آنے والی اس نیشنل الائنس کو پارلیمان کی 70 نشستیں حاصل ہیں اور حکومت سازی کے لئے اس جماعت کی حیثیت ’کنگ میکر‘ کی سی ہے۔ سات مارچ کو منعقد ہونے والے انتخابات میں سابق وزیراعظم ایاد علاوی کی جماعت کو 91 جبکہ وزیراعظم نوری المالکی کی پارٹی کو 89 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
واضح برتری نہ ملنے کی وجہ سے دونوں جماعتیں حکومت سازی کے لئے اتحاد کی تلاش میں جتی ہوئی ہیں۔ اس ریفرینڈم کی کوئی آئینی حیثیت تو نہیں ہوگی تاہم یہ ریفرنڈم عراق میں مستقبل کی سیاسی صورتحال کے لئے ایک نیا موڑ بن سکتا ہے۔
تہران میں پناہ گزین مقتدریٰ الصدر کے مطابق موجودہ صورتحال میں کسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت سازی سے قبل عوام سے دریافت کیا جانا درست ہوگا کہ وہ کسے اپنا نیا وزیراعظم منتخب کرتے ہیں۔ اس ریفرینڈم میں عوام پانچ ناموں میں سے اگلے وزیراعظم کے نام کے لئے رائے دیں گے۔ ان ناموں میں نوری المالکی اور ایاد علاوی کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں۔
نوری المالکی اور ایادعلاوی کے اتحاد سے وسیع تر قومی حکومت کا قیام ایک انتہائی مشکل عمل ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق دونوں بڑی جماعتوں کا اتحاد ناممکنات کی حد تک مشکل ہے، اس صورت حال میں مقتدری الصدر کے انتخابی اتحاد کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ایاد علاوی نے سبقت حاصل کرنے کے بعد کہا تھا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے تیار ہیں تاہم انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں تہران پر الزام عائد کیا کہ وہ عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت بند کردے۔
خیال رہے کہ علاوی کی جیت میں عراق کی سنی آبادی کے ووٹوں نے اہم کردار نبھایا ہے، جنہوں نے پچھلے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے نتیجے میں مالکی کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ دوسری جانب یہ خدشات بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ اگر نوری المالکی اور مقتدریٰ الصدر نے اتحاد قائم کر لیا تو عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : کشور مصطفیٰ