عراقی کردستان: گھریلو تشدد سے متاثرہ خواتین کا دوہرا المیہ
4 جولائی 2024انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عراقی کرد خواتین پر گھریلو تشدد کے دوران ان کو پیٹا جائے، ریپ کیا جائے حتیٰ کہ اگر قتل بھی کر دیا جائے، تو مقدمات کی سماعت اور دیگر کارروائیوں کے دوران مشتبہ مرد ملزمان کے لیے نظام انصاف کی ہمدردیاں اکثر بہت واضح ہوتی ہیں۔ جہاں تک مقامی حکام کا تعلق ہے، تو وہ متاثرین اور ان کے مصائب کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں، جس سے پہلے سے ظلم کا شکار خواتین کو دوہرے المیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جرمنی: گھریلو تشدد کے واقعات میں مسلسل دوسرے سال بھی اضافہ
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار عراقی کرد خواتین کو وہ مدد نہیں ملتی، جس کی وہ حق دار ہیں۔ تین جولائی بدھ کے روز جاری کردہ ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ عراقی کردستان میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو مقامی عدالتی نظام سے ناکام ہی لوٹنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ میں عراقی کردستان کے حکام کے بارے میں لکھا گیا ہے، ''حکام اس امر کو یقینی بنانے میں ناکام رہتے ہیں کہ گھریلو تشدد کے مرتکب افراد کو، جو مار پیٹ، ریپ، جلا دینے حتیٰ کہ قتل جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کے جرائم کے لیے جواب دہ بنایا جائے۔‘‘
ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے اجرا کے موقع پر اس بین الاقوامی تنظیم کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے علاقائی ڈپٹی ڈائریکٹر آیا مجذوب نے کہا، ''عراقی کردستان کے خطے میں گھریلو تشدد کے مجرمانہ واقعات سے متاثرہ خواتین کو اپنے لیے انصاف کی تلاش میں ہر جگہ ناامید ہونا پڑتا ہے۔‘‘
گھریلو تشدد پورے عراق کا مسئلہ
گھریلو تشدد عراق میں صرف نیم خود مختار کرد علاقے ہی کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ عراقی کردستان میں گزشتہ برس کم از کم 30 خواتین کو قتل کر دیا گیا۔ اس سے ایک سال پہلے 2022ء میں گھریلو تشدد کے جان لیوا واقعات میں ماری گئی خواتین کی تعداد 40 رہی تھی۔
گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو یورپ میں پناہ گزین کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا، یورپی عدالت انصاف
اس شعبے میں متاثرین کی مدد اور رہنمائی کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ عراقی کردستان اور مجموعی طور پر پورے عرا ق میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی اصل تعداد معلوم اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے کہ بہت سی خواتین خوف کی وجہ سے اپنا استحصال کرنے یا اپنے ساتھ زیادتیاں کرنے والے مردوں کے خلاف شکایات درج کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔
عراق میں سال رواں کے دوران صرف پہلے چار ماہ کے دوران ہی گھریلو تشدد کے واقعات کی تقریباﹰ 14 ہزار شکایات درج کرائی گئی تھیں۔ ان میں سے غیر معمولی حد تک اکثریتی تعداد میں شکایات یا تو خواتین نے درج کرائی تھیں یا وہ ایسے جرائم سے متعلق تھیں، جن کا ارتکاب خواتین کے خلاف کیا گیا تھا۔
بغداد میں عراق کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ان ہزارہا شکایات میں سے صرف تقریباﹰ 100 کیسز ایسے تھے، جن میں ملزمان کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائیں بھی سنائی گئیں۔
بھارت میں گھریلو ملازمائیں استحصال اور بدسلوکی کا شکار
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق المیہ یہ ہے کہ عراقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان 14 ہزار کے قریب واقعات میں گھریلو تشدد کے مرتکب کم از کم تین ہزار افراد کو ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے جبکہ تقریبا ساڑھے چار ہزار کیس اس وقت مصالحتی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
ایمنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ عراق اور عراقی کردستان میں گھریلو تشدد کا شکار متاثرین کو انصاف اس لیے بھی نہیں ملتا کہ وہاں رائج قانون کے مطابق یہ لازمی ہے کہ ایسے کسی بھی جرم کے بعد پہلے متاثرہ فرد اور جرم کے مرتکب ملزم کے مابین مصالحت کی کوشش کی جائے۔ اس عمل میں کئی طرح کے سماجی عوامل بھی کارفرما رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ متاثرین کو یا تو انصاف ملتا ہی نہیں یا پھر بہت زیادہ تاخیر سے اور محض جزوی طور پر۔
م م / ا ا (شرستی پال)