1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی کردستان: گھریلو تشدد سے متاثرہ خواتین کا دوہرا المیہ

4 جولائی 2024

عراق کے نیم خود مختار علاقے عراقی کردستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے مقدمات میں مقامی عدالتیں اکثر مشتبہ مرد ملزمان کی حمایت کرتی ہیں یا کر جاتی ہیں اور متاثرہ خواتین دوہرے المیے کا شکار ہو جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4hsPz
عراقی کردستان میں ایک پندرہ سالہ لڑکی کے اس کے پینتالیس سالہ شوہر کے ہاتھوں قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے لیے خواتین بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئی تھیں، فائل فوٹو
عراقی کردستان میں ایک پندرہ سالہ لڑکی کے اس کے پینتالیس سالہ شوہر کے ہاتھوں قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے لیے خواتین بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئی تھیں، فائل فوٹوتصویر: Safin Hamid/AFP/Getty Images

انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عراقی کرد خواتین پر گھریلو تشدد کے دوران ان کو پیٹا جائے، ریپ کیا جائے حتیٰ کہ اگر قتل بھی کر دیا جائے، تو مقدمات کی سماعت اور دیگر کارروائیوں کے دوران مشتبہ مرد ملزمان کے لیے نظام انصاف کی ہمدردیاں اکثر بہت واضح ہوتی ہیں۔ جہاں تک مقامی حکام کا تعلق ہے، تو وہ متاثرین اور ان کے مصائب کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں، جس سے پہلے سے ظلم کا شکار خواتین کو دوہرے المیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جرمنی: گھریلو تشدد کے واقعات میں مسلسل دوسرے سال بھی اضافہ

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار عراقی کرد خواتین کو وہ مدد نہیں ملتی، جس کی وہ حق دار ہیں۔ تین جولائی بدھ کے روز جاری کردہ ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ عراقی کردستان میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کو مقامی عدالتی نظام سے ناکام ہی لوٹنا پڑتا ہے۔

اس رپورٹ میں عراقی کردستان کے حکام کے بارے میں لکھا گیا ہے، ''حکام اس امر کو یقینی بنانے میں ناکام رہتے ہیں کہ گھریلو تشدد کے مرتکب افراد کو، جو مار پیٹ، ریپ، جلا دینے حتیٰ کہ قتل جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کے جرائم کے لیے جواب دہ بنایا جائے۔‘‘

ایمنسٹی کو شکایت ہے کہ عراق میں خواتین پر گھریلو تشدد تو کیا جاتا ہے لیکن انہیں انصاف نہیں ملتا
ایمنسٹی کو شکایت ہے کہ عراق میں خواتین پر گھریلو تشدد تو کیا جاتا ہے لیکن انہیں انصاف نہیں ملتاتصویر: Luca Bruno/AP Photo/picture alliance

ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے اجرا کے موقع پر اس بین الاقوامی تنظیم کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے علاقائی ڈپٹی ڈائریکٹر آیا مجذوب نے کہا، ''عراقی کردستان کے خطے میں گھریلو تشدد کے مجرمانہ واقعات سے متاثرہ خواتین کو اپنے لیے انصاف کی تلاش میں ہر جگہ ناامید ہونا پڑتا ہے۔‘‘

گھریلو تشدد پورے عراق کا مسئلہ

گھریلو تشدد عراق میں صرف نیم خود مختار کرد علاقے ہی کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ عراقی کردستان میں گزشتہ برس کم از کم 30 خواتین کو قتل کر دیا گیا۔ اس سے ایک سال پہلے 2022ء میں گھریلو تشدد کے جان لیوا واقعات میں ماری گئی خواتین کی تعداد 40 رہی تھی۔

گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو یورپ میں پناہ گزین کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا، یورپی عدالت انصاف

اس شعبے میں متاثرین کی مدد اور رہنمائی کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ عراقی کردستان اور مجموعی طور پر پورے عرا ق میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی اصل تعداد معلوم اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے کہ بہت سی خواتین خوف کی وجہ سے اپنا استحصال کرنے یا اپنے ساتھ زیادتیاں کرنے والے مردوں کے خلاف شکایات درج کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔

خواتین پر گھریلو تشدد دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے
خواتین پر گھریلو تشدد دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک بڑا سماجی مسئلہ ہےتصویر: Frank Hoermann/SVEN SIMON/IMAGO

عراق میں سال رواں کے دوران صرف پہلے چار ماہ کے دوران ہی گھریلو تشدد کے واقعات کی تقریباﹰ 14 ہزار شکایات درج کرائی گئی تھیں۔ ان میں سے غیر معمولی حد تک اکثریتی تعداد میں  شکایات یا تو خواتین نے درج کرائی تھیں یا وہ ایسے جرائم سے متعلق تھیں، جن کا ارتکاب خواتین کے خلاف کیا گیا تھا۔

بغداد میں عراق کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ان ہزارہا شکایات میں سے صرف تقریباﹰ 100 کیسز ایسے تھے، جن میں ملزمان کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائیں بھی سنائی گئیں۔

بھارت میں گھریلو ملازمائیں استحصال اور بدسلوکی کا شکار

انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق المیہ یہ ہے کہ عراقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان 14 ہزار کے قریب واقعات میں گھریلو تشدد کے مرتکب کم از کم تین ہزار افراد کو ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے جبکہ تقریبا ساڑھے چار ہزار کیس اس وقت مصالحتی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔

ایمنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ عراق اور عراقی کردستان میں گھریلو تشدد کا شکار متاثرین کو انصاف اس لیے بھی نہیں ملتا کہ وہاں رائج قانون کے مطابق یہ لازمی ہے کہ ایسے کسی بھی جرم کے بعد پہلے متاثرہ فرد اور جرم کے مرتکب ملزم کے مابین مصالحت کی کوشش کی جائے۔ اس عمل میں کئی طرح کے سماجی عوامل بھی کارفرما  رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ متاثرین کو یا تو انصاف ملتا ہی نہیں یا پھر بہت زیادہ تاخیر سے اور محض جزوی طور پر۔

م م / ا ا (شرستی پال)