علم طاقت ہے اور تعلیم کیوں ضروری ہے
9 مئی 2012اور یہ بات ہمیشہ حکمرانوں کے مفاد میں نہیں رہی۔ علم طاقت ہے۔ یہ نظریہ چار صدیاں پرانا ہے۔ انگریز فلسفی فرانسس بیکن نے اس جیسے اور کئی دیگر نظریات کے ذریعے روشن خیالی کے فلسفے کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نظریے کے اہمیت اور افادیت آج بھی کم نہیں ہوئی۔ علم طاقت ہے: تعلیم، اقتصادی اور سیاسی ترقی، جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، جس کا مشاہدہ ہم آج بھی دنیا بھر میں کر سکتے ہیں۔
تعلیم تک رسائی: ایک بنیادی انسانی حق
عالمی برادری ایک عرصے سے یہ حقیقت تسلیم کر چکی ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ اقوام متحدہ کے دوسرے ہزاریے( ملینئم) کے اہداف میں دنیا کے تمام انسانوں کو بنیادی تعلیم مہیا کرنا شامل ہے۔ اس ہدف کے حصول میں پیشرفت تو ہوئی ہے لیکن ہر علاقے میں غیر مساوی اور سست۔ سن 1999 سے 2009 تک پرائمری اسکول جانے والے بچوں کی تعداد مجموعی طور پر سات فیصد کے اضافے کے ساتھ 89 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حال ہی میں یہ پیش رفت مزید سست روی کا شکار ہوئی ہے۔ افریقہ اور ایشیاء کے بعض علاقوں میں یہ ہدف سن 2015 تک بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ ترقی پذیر علاقوں میں 100 میں سے 87 بچے پرائمری اسکول کی مکمل تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کئی غریب ملکوں میں 10 میں سے چار بچے آخری جماعت میں آنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح دیہی، جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع ویسے ہی کم ہیں اور لڑکیوں کے ساتھ تو ابھی بھی دنیا بھر میں تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
تعلیم کے بغیر انسانی ترقی ناممکن
بہرحال ایشیائی ریاستیں بھارت اور چین واضح کرتی ہیں کہ تعلیم کا ایک معاشی فائدہ بھی ہے۔ پچاس کی دہائی میں جنوبی کوریا کا آج کی افریقی ریاستوں سے بھی برا حال تھا۔ مردوں عورتوں کے لیے مساوی تعلیم کے علاوہ شعبہ صحت میں سرمایہ کاری نے وہاں کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کی تیز رفتار ترقی، تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کے مرہون منت ہے۔ پچیس برس سے کم عمر ہر نوجوان کے لیے تعلیم ایک بنیادی موضوع ہے، جو نوجوانوں کی زندگی کا تعین کرتا ہے۔ چینی حکومت اس بات کی بھی واضح مثال ہے کہ وہاں مزید آزادی دیے بغیر تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس طرح کا نظام اسی وقت تک چلتا ہے، جب تک اکثریت اس کے پیچھے کھڑی ہے۔
تعلیم کا مطلب شراکت
مستقبل میں کوئی بھی غیر دستوری حکومت، اس قابل نہیں ہو گی کہ وہ تعلیم یافتہ اکثریت کا مقابلہ کر سکے۔ جب اتنی بڑی تعلیم یافتہ آبادی اس مقام پر آ جائے گی تو جمہوری تبدیلی کے لیے ذمہ داری کا حجم بھی بڑھ جائے گا۔ اس ضمن میں روس کا حوالہ موجود ہے، اسی طرح چین اور عرب ریاستوں کی مثالیں بھی لی جا سکتی ہیں۔ زمبابوے، افغانستان اور شمالی کوریا جیسے ملک مشکل چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان ملکوں کی زیادہ تر آبادی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے اور وہ ریاستی پراپیگنڈے کے حصار میں ہے۔ جب تک ایسے ملکوں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے تب تک وہ معلومات کا تقابلی جائزہ کرنے سے قاصر رہے گی اور ایسے لوگوں کو وہ نیٹ ورک بھی دستیاب نہیں کہ جہاں وہ خیالات کا تبادلہ کر سکیں، ایسی صورت میں مطلق العنان اور آمر محفوظ ہیں۔ یہ ہیں وہ وجوہات، جن کو محسوس کرتے ہوئے اس جدوجہد میں شامل ہونا ضروری ہے تاکہ تعلیم کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلییم کیا جا سکے۔
تحریر: اوٹے شیفر / امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین