عمران خان کو ایک اور موقع: تحریری جواب زیر بحث
31 اگست 2022عمران خان کی طرف سے جمع کرائے گئے تحریری بیان پر عدالت نے ناپسندیدگی اور افسوس کا اظہار کیا۔ کئی حلقوں میں عمران خان کا یہ تحریری بیان زیر بحث ہے اورکچھ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ عمران خان معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عدالت نے معروف قانون دان منیر اے ملک، مخدوم احمد خان اور پاکستان بار کونسل کو اپنا معاونین بھی مقرر کیا ہے۔ عمران خان کی نمائندگی معروف وکلا رہنما حامد خان نے کی، جن کا یہ دعویٰ تھا کہ عمران خان کا خاتون جج کی توہین کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
کئی ناقدین پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات کو بھی ہدف تنقید بنارہے ہیں، جو ان کے خیال میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ کچھ ناقدین سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے اس بیان کو خصوصاً ہدفِ تنقید بنارہے ہیں، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کیونکہ عمران خان مقبول رہنما ہیں، اس لیے انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ کوئی جواب نہیں ہے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے جو تحریری جواب جمع کرایا گیا ہے، اس میں قانونی لحاظ سے جان نہیں ہے۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے جمع کرایا گیا تحریری جواب، کوئی جواب نہیں تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سپریم کورٹ نے توہین عدالت پر سخت فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری نے سپریم کورٹ سے معافی بھی مانگی اس کے باوجود بھی ان کو نا اہل قرار دیا گیا۔ بالکل اسی طرح عمران خان کے وکیل بابر اعوان کا لائسنس سپریم کورٹ نے توہین آمیز جملے ادا کرنے پر منسوخ کیا۔ تو اس تحریری جواب میں یہ سارے عوامل پیش نظر رکھنے چاہیے تھے لیکن جواب غیر سنجیدہ انداز میں جمع کرایا گیا۔‘‘
پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی کارروائیاں اور عالمی اداروں کے تحفظات
انعام الرحیم کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج تحمل کا مظاہرہ کیا جکہ ان کا کہنا تھا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پی ٹی آئی جواب بہت سوچ سمجھ کر جمع کرائے ورنہ سب کے علم میں ہے کہ جب عدالت کے وقار پر آنچ آتی ہے، تو کیا ہوتا ہے۔‘‘
دھمکیاں قانونی دلیل نہیں
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یا تو اپنے موقف کا دفاع کرنا چاہیے یا پھر غیر مشروط معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اور پھر اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن تحریک انصاف اس کے برعکس کام کر رہی ہے۔ فواد چوہدری کہہ رہے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو روکا ہوا ہے ورنہ حالات خراب ہوجائیں اور لوگ عدالتوں پر حملہ کریں۔ اس طرح کی دھمکیاں عدالت کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گی۔ تو میرے خیال میں عمران خان کا تحریری جواب نا مناسب تھا اور اب کچھ رہنماؤں کی طرف سے دھمکیاں دینا خطرناک ہے۔‘‘
عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے پر ناقدین کی تشویش
دائرہ اختیار کا نقطہ کمزور ہے
عمران خان نے اپنے جواب میں دائرہ اختیار کی بات کی ہے لیکن کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نقطہ بھی قانونی طور پر کمزور ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ عدالت ٹیکنکل نکات کو نظر انداز کر سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت میں بھی ججوں نے ایسے مسائل کا بھی نوٹس لیا ہے، جو کسی نے خط لکھ کر عدالت کو بتائے ہوں۔ تو توہین عدالت میں درخواست بھی آسکتی ہے لیکن عدالت بغیر درخواست کے بھی نوٹس لے سکتی ہے۔ تو پی ٹی آئی کی یہ دلیل قانونی طور پر طاقت ور نہیں ہے۔ تاہم الفاظ واپس لینے والی بات مناسب ہے اور یہ ایک طریقے سے غیر رسمی معافی ہی ہے اور یہ قانونی طور پر فائدہ دے سکتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار عدالت پر ہی ہے۔‘‘