عوامیت پسند یورپ میں کیوں ناکام ہیں؟
12 جولائی 2016ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے الیگزانڈر شولس لکھتے ہیں،’’برطانیہ کی مثال نے واضح کیا ہے کہ یورپ کے عوامیت پسند ایک ایسے بد تہذیب بچے کی طرح ہیں، جو زیادہ سے زیادہ کھلونے اپنے پاس جمع کرتا ہے اور ان سے اس وقت تک کھیلتا ہے، جب تک کہ وہ ٹوٹ نہ جائیں۔ پھر وہ رونے والی شکل بنا کر اپنی والدہ کو دیکھتا ہے یا پھر متبادل کے طور پر کھیل کُود کے کسی دوسرے مرکز کی جانب چل پڑتا ہے۔ ‘‘ شولس کے مطابق بورس جانسن اور نائجل فراژ ایسے ہی بچے ثابت ہوئے ہیں۔
جرمنی میں آلٹرنیٹو فار جرمنی یعنی اے ایف ڈی نامی سیاسی جماعت کے دو رہنما فراؤکے پیٹری اور یورگ موئتھن کے مابین قیادت کے معاملے پر تنازعہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوامیت پسند انا پرست ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے مل جل کر کام کرنا ان کے لیے اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ کے الیگزانڈر شولس کے خیال میں جرمن عوامیت پسند خود کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا فیصلہ تسلیم کیا جائے اور یہ کہ وہ ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں۔
سیاست سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت کا نام ہے
ڈی ڈبلیو کے اس تبصرے کے مطابق کیا ایسے لوگوں کو واقعی ہمارے سماجی نظام اور یورپ میں بقائے باہمی کے بارے میں بات کرنی چاہیے؟ سمجھوتہ کرنے کی ذرا سی بھی صلاحیت کے بغیر؟ یہ لوگ کسی فیصلے کے حوالے سے ذمہ داری لینے سے بھی کتراتے ہیں۔ ان کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں کے طویل المدتی نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
کیا سربراہ کا با اثر اور طاقت ور ہونا مثبت ہوتا ہے؟
عوامیت پسند اور انتہا پسند حلقے کیسے قائدین کو ترجیح دیتے ہیں؟ قدرتی طور پر یہ لوگ ایسے سربراہ چاہتے ہیں، جو اپنا حکم چلانا جانتے ہوں، چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔ کے الیگزانڈر شولس لکھتے ہیں کہ خدا ایسے بہت سے رہنماؤں سے بچائے۔ ان کے بقول ’اے ایف ڈی‘ کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو آج کل وہاں بھی دو ایسے آہنی رہنما ہی قیادت کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک مثالی عوامیت پسند رہنما وہ ہو گا، جو ان دونوں خوبیوں کا مالک ہو یعنی آہنی ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھوتے کرنا بھی جانتا ہو، جو رائے عامہ کے جائزوں کی روشنی میں اپنا سیاسی لائحہ عمل تبدیل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایک ایسا رہنما، جو اپنی سیاسی پارٹی میں غیر متنازعہ شخصیت ہو، جس کا کوئی متبادل نہ ہو اور جسے فوری طور پر تبدیل بھی نہ کیا جا سکے۔