1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورتوں کے خلاف تشدد، ترقياتی اہداف کی راہ ميں رکاوٹ

5 مارچ 2013

اقوام متحدہ نے اپنے نئی ہزاری کے ترقیاتی اہداف کے متبادل تلاش کرنے اور سن 2015 کے بعد کے عرصے کے ليے نئے ترقياتی ايجنڈے کے تعين کے ليے اس بار عوامی رائے کو مد نظر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/17qSD
تصویر: AP

عدم مساوات کے موضوع پر عوامی رائے اور عوام کے نمائندوں سے مشاورت کے ليے گزشتہ ماہ کوپن ہيگن ميں اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی کے زير انتظام ’عالمی موضوعاتی مشاورتوں‘ یا ’گلوبل تھيميٹک کنسلٹيشنز‘ کا انعقاد کيا گيا۔ اس مشاورتی اجتماع ميں شرکت کے ليے 1200 سے زائد افراد نے ڈنمارک کے دارالحکومت کا رخ کيا جبکہ منتظمين کو 175 مقالے اور دستاويزات بھی موصول ہوئيں، جنہيں ’Addressing Inequalities‘ کے نام سے ايک رپورٹ کی شکل ميں جمع کيا گيا۔ يہی رپورٹ کوپن ہيگن ميں زير بحث آئی۔

اقوام متحدہ کے خواتین سے متعلق امور کے ادارے کی ايک اعلیٰ عہديدار سرسوتی مینن نے اس بارے ميں کہا کہ انہيں ايسے معاملات ميں افراتفری پسند ہے کيونکہ افراتفری کے لمحات ہی تخليق کے لمحات ہوتے ہیں۔ یو این ویمن کے پاليسی ڈويژن کی ڈائريکٹر مینن نے مزيد کہا، ’’کسی بھی مسئلے پر ايک سے زيادہ آوازيں اور ايک سے زيادہ نقطہ ہائے نظر حاصل کرنا لازمی ہے۔‘‘

کوپن ہيگن منعقدہ اس مشاورتی اجلاس ميں خواتین اور لڑکيوں پر تشدد کا موضوع مرکزی اہميت کا حامل رہا۔ يہی موضوع اس بار پیر چار مارچ سے اقوام متحدہ کے ہيڈکوارٹرز ميں شروع ہونے والے خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کے 57 ويں اجلاس ميں بھی زير بحث ہے۔ يہ اجلاس 15 مارچ تک جاری رہے گا۔

خواتین پر تشدد کے ترقی پر منفی اثرات

کوپن ہيگن ميں ايک بحث کے دوران ’کينيڈين سينٹر فار پاليسی آلٹرنيٹيوز‘ کی ريسرچ ايسوسی ايٹ کيٹ میکِنٹرف کے بقول صنفی بنيادوں پر کیا جانے والا تشدد کئی مختلف طريقوں سے ترقی کی راہ ميں رکاوٹيں پيدا کرتا ہے۔ انہوں نے جنوبی ايشيائی ملک نيپال کی ايک عورت کی مثال دی، جو پارليمانی انتخابات ميں حصہ لينے کی خواہشمند تھی۔ تاہم اسے اس عمل سے باز رکھنے کے ليے اسی کے گھر کے باہر جنسی تشدد کی دھمکی دی گئی۔ میکِنٹرف نے کہا، ’’ہم صنفی بنياد پر کيے جانے والے تشدد پر بات کيے بغير سياست ميں شموليت پر بات کر ہی نہيں سکتے۔‘‘

اجتماع ميں شرکت کے ليے 1200 سے زائد افراد نے ڈنمارک کے دارالحکومت کا رخ کيا
اجتماع ميں شرکت کے ليے 1200 سے زائد افراد نے ڈنمارک کے دارالحکومت کا رخ کياتصویر: picture-alliance/dpa

کيٹ میکِنٹرف نے مزيد بتايا کہ کينيڈا کے چند اسکولوں ميں لڑکيوں کو اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے طالب علموں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کيا جاتا ہے۔ انہوں نے بتايا کہ بزنس ویمن بھی گھريلو تشدد اور اپنے روزگار کی جگہوں پر تشدد کا شکار بنتی ہيں۔ خبر رساں ادارے آئی پی ايس سے بات کرتے ہوئے کينيڈا سے تعلق رکھنے والی محقق کیٹ میکِنٹرف کا کہنا تھا کہ عورتوں اور لڑکيوں کے خلاف ہونے والا تشدد کسی بھی ترقياتی ہدف کے حصول ميں رکاوٹ کی مانند ہے۔ میکِنٹرف نے نئی ہزاری کے ترقیاتی اہداف پر تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ ان اہداف ميں عورتوں کے خلاف صنفی بنيادوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے ليے کوئی اقدام شامل نہيں ہے۔

’ايکشن ايڈ يوکے‘ نامی عورتوں کے لیے ايک فلاحی امدادی ادارے ميں ايڈوائزر کے طور پر کام کرنے والی زہرہ موسیٰ نے اس مشاورتی اجلاس ميں کہا کہ عورتوں اور لڑکيوں کے خلاف تشدد ہی صنفی عدم مساوات کی بنيادی وجہ ہے۔ موسیٰ کے بقول اکثر اوقات انہی عورتوں اور لڑکيوں کو نشانہ بنايا جاتا ہے، جو اس عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھاتی ہيں۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستان کی ملالہ يوسف زئی کی مثال بھی دی، جسے طالبان عسکريت پسندوں نے اس ليے دہشت گردی کا نشانہ بنايا کيونکہ وہ اپنے علاقے ميں لڑکيوں کی تعليم کے فروغ کے ليے آواز اٹھا رہی تھی۔

کوپن ہيگن ميں ہوئی اس مشاورت ميں ايسے معاشروں کا بھی ذکر ہوا، جہاں يا تو جنگ جاری ہے يا ابھی حال ہی ميں ختم ہوئی ہے۔ ماہرين کا ماننا ہے کہ ايسے حالات ميں مردوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ قائم کريں جبکہ قانونی نظام بھی نہ ہونے کے برابر ہی رہ جاتا ہے۔ ایسے میں خواتین کے خلاف جنسی زيادتی جيسے عمل ديکھنے ميں آتے ہيں۔

as / mm (IPS)