1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عيد کے بعد بات کريں گے، طالبان کا کابل حکومت کے نام پيغام

24 جولائی 2020

افغان طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ طالبان اور سیاسی حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل کئی ہفتوں سے تعطل کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/3fsdb
Afghanistan Taliban-Freilassung
تصویر: picture-alliance/Zuma/PPI

امریکا کے ساتھ طالبان کی رواں برس انتیس فروری کو طے پانے والی ڈیل کی روشنی میں امکان پیدا ہوا تھا کہ افغانستان میں قیام امن ممکن ہے۔ اس ڈیل کے تحت کابل حکومت اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکراتی عمل شروع ہی نہیں ہو سکا اور تشدد کی فضا بدستور قائم ہے۔ اب امن قائم ہونے کا ایک اور موقع سامنے آیا ہے اور اس میں طالبان کی قیادت کا کابل کی سیاسی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان قابل اعتبار نہیں، امریکی تجزیہ کار

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اختتام جولائی پر منائے جانے والے مسلمانوں کے مقدس تہوار عید الضحیٰ کے بعد مذاکرات شروع کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کابل حکومت کے بقیہ قیدیوں کو رہا کر کے حکومتی اہلکاروں کے حوالے کر دیں گے۔

Afghanistan kapitulierenden Taliban-Kämpfer übergeben Waffen
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Sahel

مذاکرات کا اعلان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ شاہین نے   قیدیوں کی رہائی کو مذاکرات کی شروعات کا پہلا قدم کہا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب طالبان تحریک کے اندر حیران کن تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں طاقتور انتظامی کونسل میں کی گئی ہیں۔

دوسری جانب کابل حکومت کی مئی میں قائم کی جانے والے ہائی کونسل برائے قومی مصالحت کا کہنا ہے کہ وہ طالبان قیدیوں کی فہرست کو مرتب کرنے میں مصروف ہے۔ یہ کونسل طالبان کے ساتھ امن و مصالحتی مذاکرات کرنے کے لیے صدر اشرف غنی نے تشکیل دی تھی۔ اس کی سربراہی صدارتی انتخابات میں شریک امیدوار عبداللہ عبداللہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: افغانستان میں تشدد کم کرنے کی کوشش میں ہیں، خلیل زاد

خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے نمائندہ دفتر نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہونے والی بیس رکنی ٹیم کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس ٹیم کے تیرہ ارکان طالبان لیڈرشپ کونسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مذاکراتی ٹیم کو بات چیت کے دوران فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔ اس ٹیم کی قیادت طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ایک ملا عبد الغنی برادر ہیں، جو آٹھ برس پاکستان میں جیل کاٹ چکے ہیں۔

Afghanistan Croronavirus Taliban
تصویر: Getty Images/AFP

ہائی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کا کہنا ہے کہ اس وقت کابل حکومت کی قید میں چھ سو طالبان قیدی ہیں، جو انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں اور ان کو رہائی دینے پر حکومت کو تحفظات ہیں۔ اس کا بھی امکان کم ہے کہ عید الضحیٰ کے موقع پر طالبان قیدیوں کو رہائی ملے گی۔

یہ امر اہم ہے کہ انتیس فروری کی طالبان امریکا ڈیل میں یہ طے پایا تھا کہ کابل حکومت پانچ ہزار شدت پسند قیدیوں اور افغان طالبان ایک ہزار مقید حکومتی اہلکاروں کو رہا کریں گے۔ ڈیل کے مطابق کابل حکومت اور طالبان کے مذاکرات شروع ہونے سے قبل قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔ قیدیوں کی رہائی کو اس ڈیل کا سب سے اہم نکتہ قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ’طالبان قیدیوں کا تبادلہ اہم قدم ہے‘: امریکا

کابل حکومت طالبان کی فراہم کردہ فہرست میں درج قیدیوں کی جگہ دوسرے قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامند ہے۔ حکومت ابھی تک سنگین جرائم میں ملوث طالبان قیدیوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ ہائی کونسل کرتی ہے تو کیا یہ صدر اشرف غنی کی حکومت کو قبول ہو گا، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔

ع ح، ع آ  (اے پی)

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں