’عید کے بعد رائے ونڈ جائیں گے‘
4 ستمبر 2016لاہور میں رات گئے ایک بڑے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سپریم کورٹ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف کو ملک سے فرار ہونے سے روکے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے۔
اس موقعے پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف سے چار سوالوں کا جواب بھی مانگا ۔ ان کے مطابق نواز شریف کو بتانا پڑے گا کہ ان کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے، ان کا پیسہ ملک سے باہر کیسے گیا اور انہوں نے اپنی آمدنی پر کتنا ٹیکس دیا؟۔ اس کے علاو نواز شریف یہ بھی بتائیں کہ انہوں نے لندن میں جائیداد کیسے خریدی۔ عمران خان نے کہا اگر انہیں ان سوالوں کے جواب نہ ملے تو وہ عید کے بعد رائے ونڈ میں دھرنا دیں گے۔
دوسری طرف راولپنڈی میں ہونے والی ایک حکومت مخالف ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی رائیونڈ جانے کی دھمکی دے دی ہے تا ہم انہوں نے اس ضمن میں کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ایک مسلم لیگی رہنما دانیال عزیز نے اس صورتحال پر ایک دلچسپ سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کی بھی کھوج لگائی جانی چایئے کہ شیخ رشید، طاہرالقادری اور عمران خان کو کون اکٹھا کر رہا ہے؟۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں جنرل راحیل شریف کو سلام پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ انہوں نے فیلڈ مارشل کا عہدہ اور مدت ملازمت میں توسیع کی حکومتی پیشکشوں کو قبول نہ کرکے بکنے سے انکار کر دیا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی نے مردان کے افسوسناک سانحے کے بعد لاہور کے جلسے میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے ناچ گانے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ یہ بھی سوچا جانا چاہیئے کہ کے پی کے کے جن گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے ان کے دلوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔
لاہور میں ہونے والی تحریک انصاف کی ریلی میں پاکستان مسلم لیگ ’ق‘ سمیت حزب اختلاف کی متعدد جماعتوں کے لوگ شریک ہوئے، ریلی کے شرکا کی تعداد 25000 سے زائد تھی۔ اس ریلی میں شرکت کے لیے پنجاب کے ایک درجن اضلاع سے لوگ لاہور پہنچے تھے۔
لاہور اور راولپنڈی میں ہونے والے اس احتجاج کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ اس دوران احتجاجی ریلی کے شرکا کی حفاظت کے نام پر سڑکوں پر کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کی وجہ سے کئی مریض ہسپتال نہ پہنچ سکے اور یوں لاہور میں ایک کم سن بچہ اور راولپنڈی میں ایک خاتون مریضہ جاں بحق ہو گئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس ریلی کی وجہ سے 4 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
پاکستان میں سیاسی مبصرین ستمبر کے مہینے کو اس حوالے سے اہم قرار دے رہے ہیں کہ اس مہینے میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کا فیصلہ کن راونڈ منعقد کرنے جا رہی ہیں۔ پاکستان میں نومبر کے آخری ہفتے میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے حکومت کی تبدیلی کے خدشات بھی بعض حلقوں کی طرف سے سامنے آتے رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اس وقت نوازحکومت کو نہ ہٹایا جا سکا تو پھر 2017ء کا سال الیکشن مہم کا سال ہو گا اور نواز حکومت کے ذریعے وجود میں آنے والی نگران حکومت کے ذریعے 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کی کامیابی مزید مشکل ہو جائے گی۔
اگرچہ نواز حکومت ان احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے آجکل شدید دباؤ میں ہے لیکن اس کے باوجود غیر جانب دار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فی الحال حکومت کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔