غازی عبدالرشید کے بیٹے اسلحے اور فوجی وردی کے ساتھ گرفتار
23 ستمبر 2015پولیس کے مطابق رینجرز اور پولیس کی مشترکہ پٹرولنگ ٹیم نے منگل اور بدھ کی درمیانی رات سیکٹر ایف سکس کے علاقے سپرمارکیٹ میں معمول کی تلاشی کے دوران ایک گاڑی سے ایک عدد پستول اور فوجی وردی برآمد کی۔
اس گاڑی میں لال مسجد میں دو ہزار سات کے فوجی آپریشن میں مارے گئے غازی عبدالرشید کے دو بیٹے تئیس سالہ ہارون رشید، اکیس سالہ حارث رشید اور ان کا ایک دوست آصف موجود تھے، جنہیں گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان کے خلاف اسلحہ رکھنے اور دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا۔
دوسری جانب لال مسجد کے ایک ترجمان حافظ احتشام کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے دونوں بھائی عید منانے کے لیے اپنے دوست کے ہمراہ آبائی علاقے روجھان ضلع ڈیرہ غازی خان جا رہے تھے کہ انہیں ایک پولیس ناکے پر گرفتار کر لیا گیا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ’ان کے پاس سے جو پستول برآمد ہوا ہے، وہ لائسنس یافتہ ہے، جو اپنی حفاظت کے نقطہٴ نظرسے رکھا گیا تھا، اس کے علاوہ پولیس جس ڈریس کو فوجی وردی کہہ رہی ہے، وہ شکار کے لیے استعمال ہونے والی وردی ہے کیونکہ دونوں بھائی شکار کے شوقین ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ دونوں بھائی مدرسے کے طالبعلم ہیں اور کبھی بھی کسی غیر قانونی یا مشکوک سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں ہارون رشید غازی عبدالرشید قتل کیس میں سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کے مدعی ہیں، جس کی وجہ سے ان پر مقدمے سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
ترجمان کے مطابق انہوں نے وکیل کی خدمات حاصل کر لی ہیں اور جلد ہی ضمانت کے لیے درخواست دائر کر دی جائے گی۔
اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی طرف سے اسلام آباد اور اس کے مضافاتی علاقوں میں غیر قانونی اسلحے اور مشکوک افراد کے خلاف گزشتہ کچھ دنوں میں آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے۔
تاہم تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ لال مسجد کے سابق نائب خطیب کے بیٹوں کی گرفتاری ایک اہم پیشرفت ہے، جس کے سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا:’’لال مسجد اور اس سے جڑے خاص کر غازی عبدالرشید کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے بہت سے لوگ اب بھی موجود ہیں، جو ان گرفتاریوں سے ناراض ہو سکتے ہیں لیکن حکومت کو اس بنیاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور معاملے کی شفاف تحقیقات کر کے اگر کسی کو قصور وار پاتی ہے تو اسے سزا دینی چاہیے۔‘‘
خیال رہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد میں دو ہزار سات کے فوجی آپریشن میں اس مسجد کے نائب خطیب کی اپنی والدہ، بھتیجے اور دیگر طالب علموں کے ہمراہ ہلاکت کے بعد دہشت گردانہ اور خودکش حملوں میں تیزی آ گئی تھی۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں لال مسجد سے منسلک غازی بریگیڈ کے شدت پسند ملوث تھے۔