غزہ: اقوام متحدہ نے جرائم کی تفتیش کی قرارداد منظور کر لی
28 مئی 2021انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے 'ہیومن رائٹس کونسل' نے 27 مئی جمعرات کے روز اس قرارداد کو منظور کر لیا جس میں رواں ماہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ہونے والی لڑائی کے دوران ممکنہ طور پر ہونے والے جنگی جرائم کی تفتیش کے کی بات کہی گئی ہے۔ قرارداد میں اس کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے۔
'ہیومن رائٹس کونسل' میں یہ ووٹنگ انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی سربراہ میشیل بیچلیٹ کے اس بیان کے بعد ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ پر اسرائیل کی فضائی بمباری اور فلسطینی عوام کے خلاف اس کی کارروائیاں ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے دائرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے لیے فلسطینی گروپ حماس پر بھی نکتہ چینی کی تھی۔
غزہ اور اسرائیل کے درمیان گیارہ روز تک چلنے والی اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ پر سینکڑوں فضائی حملے کیے جس میں کم سے کم 248 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس میں 66 بچے اور تین درجن سے زیادہ خواتین شامل ہیں۔ ان حملوں میں دو ہزار کے قریب فلسطینی زخمی بھی ہوئے جبکہ سینکڑوں اہم عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔
ہیومن رائٹس کونسل کی اس قرار داد کے حق میں 24 ووٹ ملے جبکہ اس کی مخالفت میں صرف نو ووٹ پڑے۔ جرمنی نے بھی قرارداد کی حمایت کے بجائے اس کی مخالفت کی۔ بھارت سمیت 14 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اسرائیل، امریکا اور فلسطین کا رد عمل
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنی کئی ٹویٹ میں ہیومن رائٹس کونسل کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے اسے ''شرمناک فیصلہ'' بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے، ''عالمی قوانین کی تضحیک اور دنیا بھر کے شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔''
اسرائیل کے اتحادی ملک امریکا، جو فی الوقت کونسل کا رکن نہیں ہے اور اس کی موجودگی صرف ایک مبصر کی حیثیت سے ہے، نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جنیوا میں امریکی مشن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''آج کی کارروائی سے کوئی بات بننے کے بجائے اس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے رک جانے کا مزید خطرہ ہے۔''
فلسطین نے اس فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ اس سے، ''اسرائیل کے جبری نظام اور فلسطینی عوام کے ساتھ اس کے امتیازی سلوک کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے میں مدد ملے گی۔''
حماس کے ایک ترجمان نے اپنے گروپ کی جانب سے کارروائی کو ''قانونی طور پر درست مزاحمت'' بتاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو سزا دینے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
قرارداد میں کیا ہے؟
اس قرارداد کا متن اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی اور فلسطینی وفد نے مل کر مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ قرارداد میں اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ میں حقوق کی پامالیوں کے بارے میں تفتیش کرنے اور رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک مستقل تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکوائری کمیشن کو اس بات کی بھی تفتیش اختیارات دیے جائیں کہ آخر خطے میں، ''مسلسل کشیدگی، عدم استحکام اور تنازعے کے اتنے طویل ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔'' اس میں فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان پر جبر کی بھی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دیگر ممالک کا رد عمل
کمیشن کے لیے برطانوی سفارت کار سائمن مینلی کا کہنا تھا کہ کمیشن کو جو اتنے وسیع اختیار ات دینے کی بات کہی گئی ہے اس سے فریقین کے اپنے اپنے موقف پر مزید سخت ہونے کا خدشہ ہے۔
روسی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اس قرارداد میں، ''حالیہ عرصے میں ہونے والی تمام مبینہ خلاف ورزیوں کے پیچھے کے تمام حقائق کا پردہ فاش
کرنے کی صلاحیت ہے۔'' جبکہ آسٹریا نے اسرائیل کی حمایت کی اور کہا کہ یہ اسرائیل کو تنہا کرنے کی کوشش ہے۔
ص ز / ج ا (روئٹرز، اے پی)