1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ: ’تشدد حل نہیں ہے‘، DW کا تبصرہ

16 نومبر 2012

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے ایک دوسرے پر راکٹ حملوں نے چار سال پہلے کی غزہ جنگ کی یادیں پھر سے تازہ کر دی ہیں تاہم ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار بیٹینا مارکس کے مطابق ہمیشہ کی طرح اب بھی ضرورت ایک جامع سیاسی حل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/16kOu
تصویر: Reuters

اسرائیل نے غزہ پٹی پر اپنے تازہ ترین حملوں کا جواز بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ’دنیا کا کوئی بھی ملک اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ اُس کے پڑوسی اُس پر راکٹ اور گرینیڈز پھینکتے رہیں‘۔ ظاہر ہے کون ہو گا، جو اس بیان کی مخالفت کرے گا؟ اپنے شہریوں کا تحفظ کرنا کسی بھی ریاست کا فرض ہوتا ہے۔ جنوبی اسرائیل کے شہریوں کو گزشتہ بارہ برسوں سے بار بار غزہ پٹی سے راکٹ حملوں کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے، وہاں بچوں کو کئی کئی دن تہہ خانوں میں چھُپ کر گزارنا پڑتے ہیں اور روزمرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ بات ناقابل قبول ہے۔

لیکن اس بات کا اطلاق صرف اسرائیلیوں ہی پر نہیں ہوتا ہے۔ اس کا اطلاق غزہ پٹی میں بسنے والے اُن 1.7 ملین انسانوں پر بھی ہوتا ہے، جو ہر طرف سے بند اس تنگ اور گنجان آباد ساحلی علاقے میں آباد ہیں۔ سلامتی، خوشحالی، آزادی اور ترقی اُن کا بھی حق ہے۔ تاہم غزہ میں بسنے والے فلسطینی ان قدرتی اور بنیادی حقوق کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

ایک فلسطینی اسرائیلی گولہ باری سے غزہ پٹی میں واقع اس مسجد کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے رہا ہے
ایک فلسطینی اسرائیلی گولہ باری سے غزہ پٹی میں واقع اس مسجد کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے رہا ہےتصویر: Reuters

قید و بند کی زندگی

1991ء یعنی بیس سال سے زیادہ عرصے سے یہ فلسطینی چاروں طرف بنی باڑوں کے بیچ ایسے زندگی گزار رہے ہیں، جیسے کہ وہ کسی بڑی جیل میں ہوں۔ تب اوسلو امن عمل سے بھی پہلے اسرائیل نے غزہ اور غربِ اردن میں بسنے والے فلسطینیوں کی نقل و حرکت انتہائی زیادہ محدود کر دی تھی۔ 90ء کے عشرے کے وسط میں امن مذاکرات شروع ہوئے تو غزہ پٹی کے گرد ایک باڑ لگا دی گئی۔ اس کے بعد ورکرز کو محض ایک خصوصی اجازت نامے ہی کے ذریعے غزہ سے اسرائیل جانے کی اجازت دی جانے لگی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران غزہ کے گرد حصار مسلسل زیادہ سے زیادہ تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ حماس کی انتخابی کامیابی کے بعد سے تو غزہ میں تقریباً مکمل ناکہ بندی کی صورت حال ہے۔

غزہ کی زیادہ تر آبادی (60 فیصد کی عمریں 20 سال سے کم ہیں) نے کبھی غزہ پٹی سے باہر کی دنیا نہیں دیکھی ہے۔ وہ گویا ایک جیل میں پیدا ہوئے ہیں۔ اُن کا نہ کوئی مستقبل ہے اور نہ اُنہیں کوئی امید ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگلے دَس برسوں میں غزہ پٹی اس قابل ہی نہیں رہے گی کہ وہاں انسان زندگی گزار سکیں۔

16 نومبر کو مصری وزیر اعظم حشام قندیل نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر غزہ کا مختصر دورہ کیا اور حماس کے سینئر رہنما اسماعیل حانیہ سے بھی ملاقات کی
16 نومبر کو مصری وزیر اعظم حشام قندیل نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر غزہ کا مختصر دورہ کیا اور حماس کے سینئر رہنما اسماعیل حانیہ سے بھی ملاقات کیتصویر: Reuters

ایک بار پھر ایک غزہ جنگ

تاہم اسرائیل ہی نہیں، پوری عالمی برادری اس ساری صورت حال کو سیدھے سیدھے نظر انداز کر رہی ہے۔ تنازعہء مشرقِ وُسطیٰ کا حل گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی ایجنڈے پر ہی نہیں ہے۔ غزہ پٹی کی اہمیت اسرائیلی انتخابی مہم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ چار سال پہلے بھی اسرائیلی انتخابات سے چند روز قبل کیے جانے والے اسرائیلی آپریشن میں 1400 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس بار بھی اسرائیلی فوج نے آٹھ نومبر کو خان یونس میں فٹ بال کھیل رہے ایک نوعمر کو ہلاک کرتے ہوئے اُس معاندانہ فضا کو ہوا دی ہے، جس میں پہلے اسرائیل پر راکٹ برسائے گئے اور پھر اسرائیلی فضائیہ کے جوابی حملے عمل میں آئے۔

وزیر دفاع ایہود باراک کی چھوٹی سی سیاسی جماعت اپنے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور غزہ میں کارروائی کے بعد یہ جماعت پارلیمنٹ تک پہنچنے کی امید کر سکتی ہے۔ تاہم تشدد کی اس نئی لہر سے غزہ پٹی کا مسئلہ بہرحال حل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس سے جنوبی اسرائیل کے شہریوں کو سلامتی کی ضمانت مل سکے گی۔

اس تنازعے کو محض ایک جامع سیاسی حل کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ شرط لیکن یہ ہے کہ سلامتی اور سکون کو صرف اسرائیلیوں ہی کا حق نہ مانا جائے بلکہ فلسطینیوں کے سلامتی، آزادی اور خود ارادیت کے حق کو بھی تسلیم کیا جائے۔

B.Marx/aa/ij