غزہ جنگ کے بعد فلسطینیوں کا مستقبل، عرب ممالک کی سوچ کیا؟
19 مئی 2024عرب ممالک کو اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی حکومت دونوں ہی کی حمایت کی ضرورت ہے، جس میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی قیادت وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کر رہے ہیں، جو دو ریاستی حل کے سخت مخالف ہیں۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، اردن اور مصر نے اسرائیل اور امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ ان کی طرف سے مالی اور سیاسی مدد، جو کہ بکھری ہوئی غزہ پٹی کے مستقبل کے لیے اہم ہو گی، ایسے ہی مفت میں نہیں ملے گی۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے گزشتہ ماہ ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ''ہم فلسطینیوں کے ساتھ قریبی رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اب صحیح معنوں میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''حقیقی سیاسی راستے کے بغیر ... عرب ممالک کے لیے یہ بات کرنا بھی بہت مشکل ہو گا کہ ہم غزہ میں کس طرح حکومت قائم کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عرب رہنما دو ریاستی حل کی طرف ایک راستہ طے کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے ہوں۔ یہ ممالک پہلے بھی یہی مطالبہ کر چکے ہیں جبکہ ان کے خیال میں اسی طرح مشرق وسطیٰ میں تناؤ کو کم اور خوشحالی کے دور کو شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ علاقائی معیشتوں کی ترقی متاثر ہو رہی ہے اور یہ تنازع خطے کے دیگر ممالک تک پھیلنے کا خدشہ ہے۔ گزشتہ ماہ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر یورپی اور عرب وزرائے خارجہ نے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
عرب ممالک کے مطالبات اور منصوبہ
ان مذاکرات سے واقفیت رکھنے والے ایک سفارت کار کا کہنا ہے، ''عرب ممالک دو چیزوں کے حصول کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ فلسطینی ریاست کا قیام اور اسے اقوام متحدہ میں تسلیم کروانا۔‘‘
متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم کی سرزنش
اس سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ''جو چیز اس وقت ان منظم کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہے، وہ جنگ کا جاری رہنا اور نیتن یاہو کا اس منصوبے کو بے جا مسترد کرنا ہے۔‘‘
برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک چیٹہم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی پروگرام کی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ عرب رہنما بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ نام نہاد ''ڈے آفٹر پلان‘‘ کی باہمی حمایت کی جا سکے۔
صنم وکیل کے مطابق اس منصوبے کا مرکزی مقصد فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات لانا بھی ہے تاکہ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں دوبارہ ایک متحدہ انتظامیہ کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔
قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے ابھی چند روز قبل ہی کہا، ''ہم ایک ایسی فلسطینی حکومت پر یقین رکھتے ہیں، جو بیک وقت مغربی کنارے اور غزہ کی انچارج ہو۔‘‘
انہوں نے دوحہ میں قطر اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس منتقلی سے ''فلسطینی کاز کو متاثر یا فلسطینی اتھارٹی کو کمزور نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
مارچ میں فلسطینی صدر نے نومنتخب وزیر اعظم محمد مصطفیٰ کی قیادت میں ایک حکومت کی منظوری دی، جو یہ چاہتی ہے کہ وہ جنگ کے بعد غزہ میں اپنا کردار ادا کرے۔
تاہم ایک ممتاز اماراتی تجزیہ کار عبدالخالق عبداللہ کے مطابق اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلی حکومت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرب ممالک کی ان کوششوں میں اسرائیلی اپوزیشن بھی شامل ہے۔ اس ماہ کے شروع میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے ابوظہبی میں اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ سے بھی ملاقات کی تھی۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق اس ملاقات میں دو ریاستی حل پر مذاکرات کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گزشتہ ماہ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفادی نے کہا تھا کہ عرب ریاستیں غزہ میں اپنی فوجیں نہیں بھیجیں گی تاکہ ''اس جنگ سے پیدا ہونے والے مصائب‘‘ سے بچ سکیں۔ انہوں نے ریاض میں کہا، ''بطور عرب ممالک ہمارے پاس ایک منصوبہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم دو ریاستی حل کی بنیاد پر امن چاہتے ہیں۔‘‘
تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی بغیر کسی ضمانت کے غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات کو پورا کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہی ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں سعودی امور کے ماہر بیرنارڈ ہیکل کہتے ہیں، ''وہ یقینی طور پر صرف ایک 'پِگی بینک‘ نہیں بننا چاہتے۔ وہ اسرائیل کی گندگی کو صاف کرنے اور صرف اس میں پیسہ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی سفیر لانا نسیبہ نے فروری میں کہا تھا، ''ہم ری فنڈنگ کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ ہم نے جو کچھ بنایا ہے، اسے تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘
ا ا / ش ر، م م (اے ایف پی)