غزہ: حالات خراب تر ہوتے ہوئے
17 نومبر 2012اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک ممکنہ زمینی پیشقدمی کے لیے بھی تیاریاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہونے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’یقیناً اسرائیل پر راکٹ حملوں کو روکنے کے لیے ہم تمام تر ذرائع بروئے کارلائیں گے۔ ضرورت پڑنے پرہم اس آپریشن کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے بھی تیار ہیں‘‘۔
فلسطینی ذرائع نے بتایا کہ بدھ سے لے کر اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 345 ہے۔ اس دوران عام شہریوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ اسی وجہ سے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے بھی اپنی مخالف تنظیم حماس سے یکجہتی کا اظہار کیا۔’’اسرائیل تمام فلسطینیوں کو نشانہ بنانا چاہتا ہے تاکہ ہماری ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی کوششوں کو روکا جا سکے‘‘۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ شب سے اب تک اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں 180 حملوں میں آٹھ سو سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا۔ دیگراہداف کے ساتھ ساتھ حماس کے حکومتی ہیڈ کوارٹر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج کی ترجمان اویتال لائبووِچ’Avital Leibovich‘ نے بتایا کہ عسکریت پسند سرحد پار سے اب تک 600 سے زائد راکٹ فائر کر چکے ہیں، جن میں 404 زمین تک پہنچے جبکہ 230 کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔’’یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا اور اُن تین ملین اسرائیلیوں کی زندگیاں معمول پر نہیں آ جاتیں، جو اس وقت راکٹ حملوں کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
غیر معمولی طور پر واضح انداز میں جرمن سیاستدانوں نے بھی حماس کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ جرمن چانسلرانگیلا میرکل نے مصری حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ حماس پراپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔’’راکٹ حملوں کے ذریعے تشدد کو ہوا دینے کی ذمہ داری حماس پرعائد ہوتی ہے۔ اس طرح کے تشدد کا کوئی جواز پیش کیا نہیں جا سکتا‘‘۔
آج ہفتے روز تیونس کے وزیر خارجہ رفیق عبدالسلام نے اظہار یکجہتی کے طور پرغزہ کا ایک مختصر دورہ کیا۔ اس سے قبل گزشتہ روز مصری وزیراعظم حشام قندل نے بھی غزہ کا دورہ کیا تھا۔
ai / aa (AFP, dpa)