غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں، 'پیش رفت کی توقع کم ہی‘
7 جون 2024غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے رفح میں فضائی اور زمینی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے تازہ حملوں میں صرف جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ایک بیان کے مطابق البریج اور دیرالبلح میں کی گئی کارروائیوں میں’درجنوں دہشت گردوں کو ختم‘ کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل نے رفح کے جنوبی علاقوں میں کیے گئے دو مختلف حملوں کی فوٹیج بھی جاری کر دی ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج نے بتایا ہے کہ وسطی اور شمالی غزہ کے کچھ مقامات پر حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ گھمسان کی لڑائی بھی جاری ہے۔ ایک فلسطینی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز غالباﹰ رفح کے ساحلی علاقے تک رسائی چاہتی ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات بدترین تھی۔
اسرائیلی فورسز وسطیٰ غزہ کے شہر البریج میں کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے مطابق اس مقام پر حماس کے کچھ عسکری ٹھکانوں کی نشاندہی کے بعد وہاں فضائی حملوں سے اس جنگجو گروہ کی کئی تنصیبات کو تباہ کر دیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ اس علاقے میں حماس نے زیر زمین بھی کوئی انفراسٹریکچر بنا رکھا ہے۔
اسکول پر حملے کی مذمت
غزہ میں النصیرات مہاجر کیمپ میں واقع ایک اسکول میں بنائے گئے شیلٹر ہاؤس پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد پینتس ہو گئی ہے۔ غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کی طرف سے مزید بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی UNRWA نے اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی حکومت کے مطابق ملکی فوج نے اس کیمپ میں انتہائی احتیاط سے کیے گئے حملے میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا، جو اسکول کے اندر تھے۔ UNRWA سے وابستہ اہلکار جوناتھن فاؤلر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ وہ اس اسرائیلی دعوے کی تصدیق کر سکیں۔
سیز فائر کی تجویز کیا ہے؟
قطر اور مصر کے مذاکرت کاروں نے غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو تیز تر کر دیا ہے۔ یہ دونوں ممالک امریکہ کے ساتھ مل کر سیز فائر ڈیل کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ہیں۔
اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ میں نئی زمینی کارروائی شروع کر دی
ایک تہائی سے زائد یرغمالی مارے جا چکے ہیں، اسرائیلی حکومت
سیز فائر کی اس ڈیل کے تحت حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی اور ساتھ ہی اسرائیلی جیلوں میں مقید کچھ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم اس مذاکراتی عمل سے واقف کچھ سفارتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ 'کسی پیش رفت کی امید کم ہی ہے‘۔
اس منصوبے میں البتہ ایسا کوئی واضح تذکرہ نہیں کہ حماس کو غزہ کا انتظام چلانے سے روک دیا جائے گا یا اس عسکری گروہ کو تباہ کر دیا جائے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی دفاعی افواج نے گزشتہ قریب آٹھ ماہ کی فوجی کارروائیوں کے دوران حماس کے جنگجوؤں کے نیٹ ورک کو اتنا تباہ حال کر دیا ہے کہ وہ اب سات اکتوبر جیسا کوئی حملہ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے۔
اس مجوزہ سیز فائر کا متن ابھی تک عام نہیں کیا گیا ہے۔ حماس کا البتہ کہنا ہے کہ یہ منصوبہ 'مثبت‘ ہے۔ حماس کا کسی بھی سیز فائر کے لیے اولین مطالبہ جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ اور غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہے۔ اسی صورت میں حماس کے جنگجو یرغمالیوں کو آزاد کرنے پر رضا مند ہیں تاہم اسرائیل اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟
سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیلی سرزمین میں داخل ہو کر اچانک حملہ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
’اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا،‘ اسرائیلی وزیر اعظم
صدر بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کا نیا منصوبہ پیش کر دیا
ان یرغمالیوں میں سے اب بھی تقریباﹰ ایک سو زندہ ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ 30 یرغمالیوں کی جسمانی باقیات بھی ابھی تک حماس کے جنگجوؤں کے قبضے میں ہیں۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ یہ عسکری کارروائی تقریباً آٹھ ماہ سے جاری ہے۔ اس دوران غزہ پٹی میں ہزاروں کی تعداد میں شہری ہلاکتیں بھی رپورٹ کی گئی ہیں۔
غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً چھتیس ہزار پانچ سو سے زائد ہو چکی ہے، جن میں بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
ع ب / ش ر (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)