غزہ میں لڑائی کے سبب یوکرین پر توجہ کم، یورپی ساکھ داؤ پر
27 اکتوبر 2023فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر ایک مہلک دہشت گردانہ حملے کے تقریباً تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی اس خطے میں صورتحال تاریک ہے۔ اس حملے میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
اسرائیل اس حملے کے ردعمل میں غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرتے ہوئے حماس کے جنگجوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس بمباری نے ایک بڑی انسانی تباہی کو جنم دیا اور حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے مطابق جمعرات تک اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 7,000 سے زیادہ فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے تھے۔ حماس کے پاس اب بھی 220 سے زائد اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں جبکہ اس دہشت گرد گروہ نے اسرائیل پر مزید راکٹ بھی داغے ہیں۔
یورپی یونین میں شامل ستائیس ممالک کے رہنماؤں کے جمعرات کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں ترجیح غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کے لیے اپنی اجتماعی طاقت استعمال کرنے اور اسرائیل سے یرغمال بنائے گئے افراد کو غیر مشروط طور پر رہا کرانے کے لیے دباؤ ڈالنا تھی۔
لیکن اس دو روزہ سربراہی اجلاس کے پہلے دن اور گزشتہ ہفتوں کی طرح لیڈروں اور یورپی یونین کے سینئیر عہدیداروں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں مخلتف رویے اپنائے۔ پوری یورپی یونین نے حماس کے حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی۔ تاہم بعض رکن ممالک نے اسرائیل کے ردعمل پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سخت رویہ اختیار کیا۔
جنگ بندی سے متعلق اختلاف رائے
اس سربراہی اجلاس سے قبل قائم مقام ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے پہلے ہی غزہ میں امداد کی اجازت دینے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی اپیلوں کو دہراتے ہوئے فوری انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم جرمنی سمیت دیگر ممالک نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حماس کے خلاف جنگ بندی اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو متاثر کرے گی۔ جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ انہیں ''کوئی شک نہیں‘‘ کہ اسرائیلی فوج بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے گی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل ایک جمہوری ریاست ہے، جس میں مضبوط انسانی حقوق کی ضمانت ہے۔ آسٹریا کے چانسلر کارل نیہامر نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا، ''جنگ بندی اور دشمنی کے خاتمے کے تمام تصورات حماس کی مضبوطی کا باعث بنے۔‘‘
یورپی یونیں کا الجھا ہوا رد عمل
یورپی رہنماؤں نے سمٹ کے پہلے دن پانچ گھنٹوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں ''انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی راہداریوں اور لڑائی میں وقفے‘‘ کا مطالبہ کیا گیا، جسے یورپی یونین کے حکام نے ایک سمجھوتہ قرار دیا۔ یورپی یونین نے حماس کے دہشت گردانہ حملوں کی ایک بار پھر مذمت کی اور کہا کہ وہ ''جلد ہی‘‘ ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی حمایت کرتی ہے۔
یورپی یونین میں فلسطینیوں کے سب سے مضبوط حامیوں میں سے ایک ملک آئر لینڈ کے وزیر اعظم لیو وراڈکر نے کہا کہ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کون سے صحیح الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے، ''ہم چاہتے ہیں کہ قتل و غارت گری اور تشدد بند ہو تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد غزہ تک پہنچ سکے، جہاں معصوم فلسطینی لوگ مصائب کا شکار ہیں۔‘‘
غزہ میں جاری لڑائی پر یورپی یونین کا ردعمل کسی حد تک الجھا ہوا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین نے سات اکتوبر کے بعد یکجہتی کے اظہار کے لیے فوری طور پر اسرائیل کا سفر کیا۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوزیپ بوریل کے برعکس فان ڈئر لاین نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کے مطابق اپنا دفاع کرنا چاہیے اور انہوں نے دو ریاستی حل کے لیے یورپی یونین کی سرکاری حمایت کا ذکر نہ کیا۔
بین الاقوامی ساکھ داؤ پر
برسلز میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار یوروپین پالیسی اسٹڈیز کے ایک فیلو جیمز موران نے کہا کہ یورپی یونین کے بعض رہنماؤں اور عہدیداروں کا ابتدائی رد عمل ''اسرائیل کی حمایت‘‘ میں تھا۔ مشرق وسطیٰ میں یورپی یونین کے سابق سینئیر ایلچی موران نے کہا، ''میرے خیال میں عرب دنیا نے اس پر کافی برا رد عمل ظاہر کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''روایتی طور پر یورپی یونین نے اس تنازعے میں کم و بیش یکساں انداز اختیار کیے رکھا ہے، جس کی وجہ سے دونوں طرف خاص طور پر عربوں میں ایک ''ایماندار بروکر‘‘ کے طور پر اس کا احترام کیا گیا۔‘‘
اردن کی ملکہ رانیہ نے بدھ کے روز مغربی رہنماؤں پر ''واضح دوہرا معیار‘‘ اپنانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے بدھ کے روز سی این این کو بتایا، ''جب سات اکتوبرکا حملہ ہوا، تو دنیا فوری اور واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوئی اور اپنے دفاع کے اس کے حق کی حمایت اور اس حملے کی مذمت کی لیکن جوکچھ ہم گزشتہ چند ہفتوں میں دیکھ رہے ہیں، ہم اس پر دنیا میں خاموشی بھی دیکھ رہے ہیں۔‘‘
یورپی یونین نے گزشتہ سال یوکرین پر روسی حملے کے بعد فوری طور پر ایک متفقہ موقف اپنایا تھا لیکن غزہ کے تنازعے پر اس کا موقف واضح نہیں رہا۔ بھارت میں منوہر پاریکر انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسز سے منسلک سواستی گاؤ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ واقعی اعتبار چھین لیتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ یورپ سے صرف اتنی ہی توقع کر سکتے ہیں، کیونکہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ (اتحاد) اندرونی طور پر منقسم ہے۔‘‘
جمعرات کو یورپی کونسل کے صدر شارل مشیل نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے پاس دوہرا معیار نہیں ہے۔ ہمارا ایک بنیادی معیار ہےکہ ہم بین الاقوامی قانون پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ مشیل نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ دنیا میں کچھ لوگ یورپی یونین پر ''حملہ‘‘ کرنے اور اس کی ساکھ کے بارے میں ''شکوک پیدا کرنے‘‘ کے لیے صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور یوکرین کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یورپی یونین ان خدشات کو بھی دور کرنے کی خواہاں ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ سے اپنی نظریں ہٹا رہی ہے۔ شارل مشیل نے زور دے کر کہا کہ ہم یوکرین کی حمایت کرتے ہیں۔ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے سربراہی اجلاس میں حالیہ امداد کے لیے یورپی یونین کی متعدد ریاستوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''میں ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو یوکرین کے ساتھ اور یورپی یونین کے اندر اتحاد کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔‘‘
یورپی ینین کے خارجہ امور پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک سے وابستہ دیمیترو کریوشیف نے کہا کہ جب اسرائیل اور حماس تنازعہ توجہ کا مرکز بن رہا تھا، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ یہ یوکرین کے بارے میں یورپی یونین کے موقف کو سنجیدگی سے تبدیل کر دے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقیناً، اسرائیل اور غزہ کے تعلقات یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے لیے اہم مسائل میں سے ایک ہیں، لیکن یہ یورپی سلامتی کے لیے اتنا بڑا اور براہ راست خطرہ نہیں ہیں جتنا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت ہے۔‘‘
تاہم سلوواکیہ میں حالیہ انتخابات میں وزیر اعظم رابرٹ فیکو کی فتح یورپی اتحاد کے لیے ایک ممکنہ چیلنج ہے۔ فیکو نے یوکرین کو ہتھیار نہ بھجوانےکا عہد کیا ہے۔ کریوشیف نے کہا، ''سلوواکیہ (ہنگری کے بعد) یورپی یونین کا دوسرا ایسا ملک بن سکتا ہے، جو کییف کی حمایت کرنے اور یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے یورپی یونین کے اتحاد کو کمزور کر سکتا ہے۔‘‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے، جن کی حکومت نے یوکرین کے لیے مختص یورپی یونین کے فنڈز روک رکھے ہیں، اس ماہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے مصافحہ کر کے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اوربان نے اپنی اس ملاقات کا دفاع کرتے ہوئے جمعرات کے روز کہا کہ ہنگری ''تمام مواصلاتی چینلز کو کھلا رکھنا چاہے گا۔‘‘
( ایلا جوئنر) ش ر ⁄ ع ب، م م