غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار سے متجاوز، مذاکرات بحال
15 اگست 2024امریکہ کا اسرائیل اور حماس دونوں سے سمجھوتے کا مطالبہ
امریکہ نے اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں جنگ بندی پر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران سمجھوتے پر آمادگی ظاہر کریں۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نشریاتی ادارے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا، ''دونوں فریقوں کو سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں فریقوں کو کچھ لیڈر شپ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
جان کربی کا مزید کہنا تھا کہ قطر کے دارالحکومت میں ہونے والی بات چیت 'معاہدے پر عمل درآمد کی تفصیلات کے بارے میں تھی، جس کے بارے میں ہم مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ معاہدے پر عمل درآمد کے لحاظ سے چھوٹے موٹے خلا کو کم کیا جاسکتا ہے‘ نہ کہ یہ بات چیت بذات خود معاہدے کے بارے میں۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں پیش رفت ہوگی۔ ان کا اس حوالے سے کہنا تھا، ''آپ جانتے ہیں کہ کبھی کبھی، جب آپ مذاکرات کے اختتام پر پہنچتے ہیں اور آپ اس طرح کی تفصیلات کے بارے میں بات کرتے ہیں، تب یہ سب سے مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔‘‘
کربی اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ کیا اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو مستقل مزاج ہیں یا مسلسل اپنے مطالبات تبدیل کر رہے ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آج جمعرات 15 اگست کو غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ بحال ہوا، جس کا مقصد جنگ کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی زمینی اور فضائی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے آج جمعرات 15 اگست کو جاری کردہ بیان کے مطابق غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 40,005 تک پہنچ گئی ہے۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 40 ہے۔
امریکہ، قطر اور مصر کے ثالثوں نے اسرائیل اور حماس کو جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی میز پر جمع کیا ہے۔
گزشتہ سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیلی سرزمین میں داخل ہو کر اچانک حملہ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریبا 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ یہ عسکری کارروائی اب اپنے گیارہویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔
'ایران، حماس اور اسرائیل کو انتباہ‘
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے ایران، حماس اور اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں کسی بھی فریق کو ایسے اقدامات نہیں کرنا چاہییں، جن سے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی فون پر بات چیت میں دونوں رہنماؤں نے علاقائی تناؤ کو کم کرنے کی کوششوں اور غزہ میں جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔
محمود عباس کا غزہ کا دورہ کرنے کا ارادہ
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اپنے دورہ ترکی کے دوران آج جمعرات کو ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنگ سے وابستہ خطرات کے باجود محصور غزہ پٹی کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بات ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کی طرف سے بتائی گئی ہے۔
محمود عباس نے انقرہ میں ترک ملکی پارلیمان میں صدر رجب طیب ایردوان کی موجودگی میں اعلان کیا کہ انہوں نے فلسطینی قیادت کے ساتھ غزہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
عباس نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی اتھارٹی جنگ کے بعد کے کسی بھی منظر نامے میں غزہ میں اسرائیلی موجودگی کو قبول نہیں کرے گی۔
مغربی کنارے، جہاں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم ہے اور غزہ پٹی کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے۔ غزہ اور مصر کے درمیان رفح سرحدی گزرگاہ فلسطین کی طرف اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔
ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے ایک روز بعد محمود عباس بدھ کو ترکی پہنچے تھے۔
ایردوان کے دفتر کے مطابق محمود عباس نے بدھ کے روز انقرہ میں ایردوان کے ساتھ بات چیت کی، جس میں غزہ میں 'مستقل جنگ بندی کے لیے اقدامات‘ سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بیان میں اسرائیل پر غزہ میں قتل عام کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق محمود عباس نے فوری جنگ بندی اور غزہ پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا۔
88 سالہ عباس فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے صدر اور فتح کے چیئرمین ہیں۔
ا ب ا/ع ب، ع ت (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)