غزہ پٹی پر اسرائیل کی فضائی کارروائی دوسرے روز بھی جاری
28 دسمبر 2008فلسطین کی غزہ پٹی پر دوسرے روز بھی اسرائیل فضائی حملے جاری رہے۔ غزہ پٹی میں ہلاک ہونے والوں کی کم از کم تعداد 298 ہو گئی ہے جب کہ طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ کل قریب ایک ہزارزخمیوں میں سےکئی کی حالت تشویش ناک ہے۔ اِن ہلاک ہونے والوں میں اقوام متحدہ سے منسلک سات امدادی کارکن بھی ہیں۔ اب تک غزہ پٹی پر اسرائیل کی جانب سے بم باری کے دوران ایک سو ٹن بارود پھینکا جا چکا ہے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو فلسطینی پٹی میں پہلے سےغذا اور ادویات کی کمیابی سے پیدا شدہ بحران کو اسرائیلی فوجی کارروائی نے انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ غزہ میں فوجی اپریشن کو وسعت دینے میں اسرائیل نے مزید پیش بندی کرتے ہوئے اپنے ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا ہے۔ غزہ میں انسانی ہلاکتوں کے کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عالمی برادری چاہتی ضرور ہے کہ فوجی ایکشن بند ہو مگر وہ اِس کے ساتھ ساتھ انتہاپسند تنظیم کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے کہ اُس کے باعث سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ محمود عباس اور مصری قیادت سمیت اور کئی دوسرے لیڈروں نے بھی یہی بات کی ہے کہ اِس المیے سے بچا جا سکتا تھا اگر حماس جنگ بندی میں توسیع کرنے میں دلچسپی ظاہر کرتا جو اسرائیل کے موقف کی ایک طرح سے تائید ہے۔ بُش انتظامیہ کے اقوام متحدہ میں سفیر زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ اگر راکٹ داغنے کا عمل نہ شروع ہوتا تو یہ تشدد نہ پیدا ہوتا۔
اِسی مناسبت سے اسرائیل مسلسل اپنے موقف کی وکالت کر رہا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کا خواہشمند تھا لیکن حماس نے اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ ایہود اولمرٹ کے وزیر سماجی بھلائی آئی زیک ہر زوگ کا کہنا ہےکہ یہ المناک حالات ہیں لیکن سارا سال اسرائیل نے فلسطینی حکام کے ساتھ سماجی بھلائی کے شعبے میں تعاون جاری رکھا اور جب بات ہو غزہ کی تو وہاں کنٹرول ایک دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ میں ہے جو صرف اور صرف راکٹ پھینکنا جانتی ہے۔
اسرائیل کے اندر سے وزیر اعظم سے لے کر نچلی سطح تک یک زبان ہو کر حماس کو اِس کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ سبھی کا خیال ہے کہ حماس کے غزہ سے میزائیل داغنے کے بعد جنوبی اسرائیل کے لاکھوں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی خاطر انتہائی اقدام کی ضرورت تھی۔
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے دوسرے دِن بھی ہوائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ آگے بھی امکاناً جاری رہ سکتا ہے کیونکہ انتہاپسند تنظیم حماس کی قیادت بشمول جلا وطن لیڈر خالد مشال کے، ہر ایک کا خیال ہے کہ شہادت ہی فلسطین کے مسئلے کا حل ہے اور اِسی سے مغربی کنارے کا تحفظ ممکن ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک کا کہنا ہے کہ اگر فضائی کارروائی کے بعد بھی حماس کے رویے میں تبدیلی نہ پیدا ہوئی تو ایک بڑا زمینی اپریشن شروع کردیا جائے گا۔
غزہ میں گزشتہ روز کے فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ صورت حال میں مزید بگاڑ کو روکنے کے لئے سفارتی کوششوں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ کوششیں کسی مناسب انجام کی جانب بڑھ نہیں پائیں گی کیونکہ حماس کی قیادت جوابی کارروائی کا مسلسل عندیہ دے رہی ہے جس سے غزہ میں مزید انسانی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے موجودہ کارروائی کو اپریشن کاسٹ لیڈ یا سیسہ ڈالنے کے عمل کا نام دیا گیا ہے۔ اس کارروائی کے خلاف، لبنان، یمن سمیت دوسرےعرب ملکوں میں عوامی سطح پر صدائے احتجاج بلند کیا گیا ہے۔ روس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کی جانب سے اِس کو فوری بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ شام نے ترکی کی معاونت سے جاری بالواسطہ مذاکراتی عمل کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔