غیر ازدواجی تعلقات، اب بھارت میں جرم نہیں
27 ستمبر 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک صدی سے زائد پرانے قانون کے تحت اگر کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کے اس کے شوہر کی اجازت کے بغیر ہم بستری کرتا ہے تو وہ ’بدکاری‘ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا پانچ برس جیل مقرر تھی۔
ایک پٹیشنر نے اس قانون کو ظالمانہ اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست دائر کی تھی کہ اس قانون کا خاتمہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا، ’’غیر ازدواجی تعلقات کو مجرمانہ نقطہ نظر سے دیکھنا رجعت پسندانہ قدم ہے۔‘‘
متروک شدہ قانون کے مطابق خواتین نہ تو اس حوالے سے شکایت درج کرا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں بدکاری کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے یہ قانون صرف مردوں سے ہی متعلق تھا۔
عدالت نے کہا کہ یہ قانون خواتین کو وقار اور ذاتی انتخاب کے حق سے محروم کرتے ہوئے ’’صرف شوہر کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خواتین کو بطور منقولہ مال کے طور پر استعمال کر سکے۔‘‘ سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرا چڈ نے کہا، ’’یہ ہر خاتون کو حاصل جنسی خود مختاری کو نظر انداز کرتا ہے اور شادی کے بندھن میں عورت کو مختاری سے محروم کرتا ہے۔۔۔ وہ صرف اپنے شوہر کی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔‘‘
رواں ماہ کے دوران یہ دوسرا ایسا موقع ہے جب بھارتی سپریم کورٹ نے برطانوی نو آبادیاتی دور کے دو ایسے قوانین کا خاتمہ کیا ہے جو بھارت کی سوا ارب شہریوں کی جنسی زندگی کے معاملات سے متعلق تھے۔ رواں ماہ کے دوران سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی سے متعلق 1861ء میں بنائے گئے قانون کو ختم کر دیا تھا۔
شادی کے بغیر ازدواجی تعلقات کے حوالے سے حکومتی وکلاء کا استدلال تھا کہ اسے ایک جرم ہی رہنے دیا جائے کیونکہ اس سے شادی کے ادارے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور یہ خاندان اور بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ غیر ازدواجی تعلقات بالغ لوگوں کے درمیان ذاتی معاملہ ہے۔
ا ب ا / ع ا (اے ایف پی)