غیر شادی شدہ جوڑے کو افغان طالبان نے قتل کر دیا
14 اپریل 2009ااطلاعات کے مطابق اکیس سالہ لڑکا اور انیس سالہ لڑکی کو پیر کے روز جنوب مغربی افغان علاقے نمروز کی ایک مسجد کے سامنے سرعام گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ نمروز افغانستان کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں طالبان عسکریت پسند تاحال طاقت میں ہیں۔
علاقائی گورنر غلام دستگیر آزاد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مقامی مذہبی رہنماؤں نے جوڑے پر ’اسلام کی توہین‘ کا الزام عائد کیا تھا۔
غلام دستگیر آزاد نے مزید بتایا :’’یہ غیر شادی شدہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور شادی کرنا چاہتے تھے تاہم ان کے والدین اس شادی پر رضا مند نہیں تھے۔‘‘
غلام دستگیر آزاد کے مطابق یہ جوڑا علاقے سے بھاگ کر ایران میں داخل ہونا چاہتا تھا تاہم عسکریت پسندوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور علاقے میں واپس لا کر سرعام قتل کر دیا۔
’’ تین طالبان ملا انہیں علاقائی مسجد میں لے کر آئے جہاں ان پر فتویٰ صادر کیا گیا جس میں کہا گیا کہ انہیں ہرصورت قتل کر دیا جانا چاہئے۔ پھر انہیں مسجد کے باہر لوگوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔‘‘
آزاد کا کہنا ہے کہ مقتول لڑکے اور لڑکی کے خاندان کے ممکنہ طور پرطالبان سے روابط ہیں۔ طالبان کی جانب سے فوری طور پر اس واقعے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے علاقے میں ہوا ہے جہاں کابل حکومت کی کوئی عمل داری نہیں ہے اور مقامی طالبان آئے دن اس طرح کے فیصلے سناتے رہتے ہیں۔
1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان نے اپنے دور حکومت میں بھی شرعی سزاؤں کے نام پر اپنی تشریحات کے مطابق لوگوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جو طالبان کے کنٹرول والے علاقوں میں تاحال جاری ہے۔
طالبان کی تشریح کے مطابق غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکی کے ملنے پر پابندی ہے۔ خواتین کسی محرم مرد کے بغیر گھروں سے نہیں نکل سکتیں اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔ افغانستان میں طالبان نے گزشتہ تین سالوں میں مسلسل اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کیا ہے اور خاص طور پر دور دراز علاقوں میں کابل حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے۔