غیر ملکی ٹی وی چینلز پر پابندی، پاکستان میں ملا جلا ردعمل
30 نومبر 2011بدھ کے روز ذرائع ابلاغ سے وابستہ بہت سے لوگوں کو ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں اس پیغام کو آن ائیر کرنے کے لیے کہا گیا تھا، ’’پورے پاکستان میں بی بی سی ورلڈ نیوز کی نشریات بند کر دی گئی ہیں، آئندہ بھی اگر کسی انٹر نیشنل چینل نے کوئی ایسی ڈاکومنٹری یا نیوز چلائی تو اسے بھی بند کر دیا جائے گا۔‘‘ اس ایس ایم ایس کے مطابق کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے میڈیا سیل میں تمام چینلز کی مانیٹرنگ سخت کر دی گئی ہے۔ اس سے ایک روز قبل ایسوسی ایشن کے نمائندے لاہور پریس کلب میں بھی ایسے ہی عزائم کا اظہار کر چکے تھے۔
پاکستان کے ایک معروف کالم نگار نذیر ناجی اس حرکت کو دھاندلی اور کاروباری بد دیانتی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بقول صارفین سے پوری فیس وصول کرنے والے کیبل آپریٹرز وہ تمام ٹی وی چینلز دکھانے کے پابند ہیں جو صارفین دیکھنا چاہیں۔
نذیر ناجی پوچھتے ہیں کہ اگر ’ملکی مفاد‘ کا یہ فیصلہ کیبل والوں نے ہی کرنا ہے تو پھر حکومت کس لیے ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں دیکھے جانے والے زیادہ تر غیر ملکی ٹی وی چینل انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، ان کے بقول پریس کانفرنس کرنے والے کیبل آپریٹروں میں شاید ایک بھی ایسا نہیں تھا جو انگریزی سمجھتا ہو۔ ان کے خیال میں کیبل آپریٹروں کو چابی دی گئی اور انھوں نے پریس کانفرنس میں آ کر سکرپٹ پڑھ دیا۔
نذیر ناجی کہتے ہیں کہ تیونس، مصر اور دیگر عرب ملکوں میں بھی ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے اطلاعات کی فراہمی روکنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ٹویٹر، یو ٹیوب اور فیس بک وغیرہ نے اطلاعات کی فراہمی جاری رکھی۔
روزنامہ ایکسپریس کے میگزین ایڈیٹر عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ پہلے حکومتیں چینل بند کرواتی تھیں اور کیبل آپریٹر انھیں کھولنے کا مطالبہ کرتے تھے، یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کیبل آپریٹر خود سے چینل بند کرنے جا رہے ہیں۔
ان کے بقول دلیل کا جواب دلیل سے دینا ہی بہتر ہوتا ہے لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دو مئی کے بعد پے در پے رونما ہونے والے واقعات نے پاکستان میں عوام کی حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان میں عالمی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کافی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود عامر خاکوانی کا کہنا ہے کہ ایسی پابندیوں سے گریز کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
پاکستان ٹیلیویژن سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے والی منیزہ ہاشمی کا کہنا تھا، ’’جب ہم ملک کے واحد سرکاری ٹی وی میں کام کرتے تھے تو لوگ کہا کرتے تھے کہ کوئی اور چینل بھی ہونا چاہیے جو دوسرا مؤقف سامنے لائے۔ اب دوسرے چینل سامنے ہیں تو ان کو بند کر دینے کی بات ہو رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول ہمیں پابندیاں لگانے کی بجائے عوام کی بصیرت پر اعتبار کرتے ہوئے فیصلہ ان پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون سا چینل، کس پالیسی کے تحت، کون سی خبریں کس کے کہنے پر دے رہا ہے۔
سینئر صحافی اور کالم نگار منو بھائی نے بھی اس اقدام کو آزادیء صحافت کے منافی قرار دیا ہے۔
ایک طالب علم عثمان عمر کہتے ہیں کہ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اطلاعات کی فراہمی پر قدغن لگانا آسان نہیں رہا ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی عالمی نشریاتی ادارہ پراپیگنڈہ بھی کر رہا ہے تو پھر بھی اس کو سن کر ہی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
ممتاز ماہر ابلاغیات اور سپیریئر یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کیبل آپریٹروں کا احتجاج دراصل دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے بھی ہے کہ بین الاقوامی میڈیا پاکستان اوراس کی مسلح افواج کے بارے میں درست اور جائز رپورٹنگ نہیں کر رہا ہے۔ یہاں یہ تاثر بھی عام ہے کہ عالمی میڈیا ایک طے شدہ ایجنڈے کے مطابق پاکستان کے خلاف ایسی خبریں بھی دے رہا ہے جو صحافت کے اخلاقی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان کے بقول عالمی میڈیا کو بھی پاکستان کے ساتھ منصفانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔
لاہور پریس کلب کے صدر سرمد بشیر کہتے ہیں، ’’عالمی میڈیا اور کیبل آپریٹر دونوں کو منصفانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق حالیہ نیٹو حملے کے بعد بعض عالمی ابلاغی اداروں کا یہ کہنا کہ حالیہ حملہ پاکستان کی کسی اشتعال انگیز حرکت کے بعد کیا گیا، درست بات نہیں تھی۔‘‘
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: حماد کیانی