غیرت کے نام پر پانچ خواتین قتل، دوبارہ تحقیقات کا عدالتی حکم
12 فروری 2014اس مقدمے سے وابستہ ایک وکیل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس واقعے میں پاکستان میں کوہستان کے شمالی علاقے میں پانچ خواتین کو ان کے گھر والوں نے مبینہ طور پر اس لیے قتل کر دیا تھا کہ وہ ایک گھر میں دو لڑکوں کے ساتھ تالیاں بجاتے ہوئے گانے گا رہی تھیں اور یہ واقعہ اس منظر کے ایک موبائل فون پر ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کیے جانے کے بعد ان خواتین کے خاندانوں کے ارکان کے علم میں آ گیا تھا۔
اس واقعے نے پاکستانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جہاں عزت اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں، لیکن متعلقہ وکیل کے مطابق اب اس معاملے میں ملکی سپریم کورٹ نے نئے سرے سے چھان بین کیے جانے اور مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دے دیا ہے۔
پانچ خواتین کے قتل کے اس واقعے کی ماضی میں کئی گئی چھان بین اور مختلف خواتین گواہان کے بیانات سے یہ نتائج سامنے آئے تھے کہ شاید ان خواتین کو قتل نہیں کیا گیا تھا تاہم اس بارے میں نئے شواہد اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان خواتین کو غالباﹰ قتل ہی کیا گیا تھا۔ تب تفتیشی ماہرین کے سامنے چند خواتین نے یہ بیانات دیے تھے کہ وہی وہ خواتین ہیں، جن کی اس واقعے میں ویڈیو ریکارڈ کی گئی تھی اور وہ زندہ ہیں نہ کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن سے منسلک ماہر قانون مظہر اکرم اعوان کے بقول ایک مقامی عدالت کے جج محمد ارشاد نے، جو اس کیس کا نئے سرے سے جائزہ لے رہے ہیں، حکم دیا ہے کہ ’ان ابھی تک زندہ خواتین‘ کو 26 فروری کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر وہ زندہ نہیں ہیں تو ان کی لاشیں عدالت میں لائی جائیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ نئی چھان بین اس واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی بظاہر آخری کوشش ہے تاکہ اس امر کا عدالتی سطح پر حتمی تعین کیا جا سکے کہ آیا اس واقعے میں پانچ خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں نئے سرے سے چھان بین کا عدالتی حکم اس لیے دیا گیا کہ جن لوگوں پر ان پانچ خواتین کو قتل کرنے کا الزام تھا، انہیں کچھ عرصہ قبل اسی واقعے سے متعلق تہرے قتل کے ایک واقعے میں سزائیں سنا دی گئی تھیں۔
کوہستان میں پانچ خواتین کے اس قتل کے واقعے میں ان خواتین کے چند رشتہ داروں کو جنوری میں اس لیے قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں کہ انہوں نے موبائل فون پر بنائی گئی ویڈیو میں نظر آنے والے دو لڑکوں کے تین بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان تین افراد کو ایک سال قبل نماز کی تیاری کرتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس جو دو لڑکے تب متعلقہ ویڈیو میں پانچ خواتین کے ساتھ گانے گاتے دیکھے گئے تھے، وہ تب سے اب تک روپوش ہیں اور ایک بار بھی منظر عام پر نہیں آئے۔
گزشتہ مہینے جس عدالت نے ایک سال قبل تین بھائیوں کے قتل کے واقعے میں ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائیں سنائی تھیں، اسی عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ مجرموں نے تین بھائیوں کو اس لیے قتل کیا تھا کہ موبائل فون پر بنائی گئی اس ویڈیو کا بدلہ لے سکیں، جس میں مقتولین کے دو دوسرے بھائی دیکھے جا سکتے تھے۔
روئٹرز کے مطابق تینوں مقتول اور دو روپوش بھائیوں کے چھٹے بھائی افضل کوہستانی کا کہنا ہے کہ وہ موبائل فون ویڈیو پر نظر آنے والے اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ پانچ خواتین کے قتل کے واقعے کے بعد سے روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کیونکہ پانچوں مقتول خواتین کے خاندان ان تینوں بھائیوں کو بھی قتل کرنے کے درپے ہیں۔ اس بارے میں پاکستانی سپریم کورٹ کا دروازہ بھی اسی شخص نے کھٹکھٹایا تھا۔
افضل کوہستانی کے مطابق اگر پانچ خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے واقعے میں ابتدائی چھان بین کرنے والے حکام اور مقدمے کی پہلی سماعت کرنے والے ججوں نے اپنا کام مناسب طریقے سے کیا ہوتا، تو پانچ پاکستانی خواتین کے قتل کے اصل حقائق بھی سامنے آ چکے ہوتے اور اس کے اپنے تین بھائی بھی قتل نہ ہوتے۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کوشاں تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریب ایک ہزار لڑکیوں اور خواتین کو عزت اور غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔