فرانس ميں درجنوں مساجد سخت نگرانی ميں
4 دسمبر 2020فرانس ميں درجنوں مساجد کی کڑی نگرانی کرنے کا اعلان فرانسیسی وزیر داخلہ نے کیا تھا۔ وزير داخلہ جيرالڈ دارماناں نے جمعرات کو بتايا کہ جن مساجد پر شبہ ہے کہ وہاں انتہا پسندانہ نظريات کو فروغ ديا جا رہا ہے، ان کی سخت نگرانی کجا سامنا کرنا پڑے گا۔ فرانسيسی وزير داخلہ نے مقامی آر ٹی ايل ريڈيو اسٹيشن پر گفتگو کے دوران بتايا کہ تفتيش کے دوران چھہتر مساجد کو انتہا پسندانہ نظريات کے فروغ میں ملوث پايا گيا ہے اور انہيں بند بھی کيا جا سکتا ہے۔
مساجد کی بندش کا پس منظر کيا ہے؟
فرانس ميں مسلم انتہا پسندوں کے خلاف يہ اقدامات دو حاليہ دہشت گردانہ حملوں کے بعد ديکھنے ميں آ رہے ہيں۔ سولہ اکتوبر کو پيرس کے نواح ميں ايک استاد کا سر اس کے تن سے الگ کر ديا گيا۔ اس استاد نے پيغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے اپنے طلباء کو دکھائے تھے۔ پھر جنوبی شہر نيس ميں انتيس اکتوبر کو ايک چرچ ميں تين افراد کو قتل کر ديا گيا۔
تازہ سختياں کيا ہيں؟
وزير داخلہ جيرالڈ دارماناں نے فوری طور پر يہ نہيں بتايا کہ کون کون سی مساجد بند کر دی جائيں گی يا ان کی کڑی نگرانی کی جائے گی البتہ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق سولہ مساجد دارالحکومت پيرس ميں ہيں جبکہ بقيہ ساٹھ ملک بھر کے دوسرے شہروں اور قصبوں ميں ہيں۔ اسی ہفتے انہوں نے يہ بھی کہا تھا کہ ان مساجد پر شبہ ہے کہ وہ انتہائی قدامت پسند اسلامی نظريات کو فروغ دينے اور خود کو فرانسيسی معاشرے سے دور رکھنے ميں ملوث ہيں۔ ايسی مساجد سے منسلک افراد اپنے بچوں کو خفيہ مسلم اسکولوں ميں بھيجتے ہيں اور بيٹيوں کو پردے پر مجبور کرتے ہيں۔
فرانس بھر ميں مساجد کی مجموعی تعداد چھبيس سو سے زائد ہے۔ فرانسيسی وزير داخلہ نے مزيد کہا کہ ان ميں سے ايک معمولی سی تعداد انتہا پسندانہ نظريات کے فروغ ميں ملوث ہيں جبکہ مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کی اکثريت فرانسيسی ری پبلک کے قوانين کا احترام کرتے ہيں۔
انتہا پسند مہاجرين کی ملک بدری کا امکان
پيرس حکومت نے ايسے غير قانونی مہاجرين کو بھی ملک بدر کرنے کا کہا ہے، جو انتہا پسندانہ نظريات کی وجہ سے حکام کی نگاہوں ميں ہيں۔ اس وقت فرانس ميں مجموعی طور پر کئی غير ملکی مہاجرین انٹيليجنس اداروں کی نگرانی ميں ہيں اور ان ميں سے چھياسٹھ کو ملک بدر کيا جا چکا ہے جبکہ پچاس ديگر کو حراستی مراکز اور تيس ديگر کو نظر بند کر ديا گيا ہے۔
ع س / ع ح (اے ايف پی)