فرانس میں بڑھتی ہوئی سام دشمنی پر ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
8 دسمبر 2014ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار ماکس ہوف من ایک80 سالہ بوڑھے شخص کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ابھی تک اُسی خوف میں مبتلا ہے کہ جرمنی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے گرفتار کر سکتا ہے اور اسے یہودی ہونے کی بناء پر نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس شخص کی شناخت کو دانستہ طور پر خفیہ رکھا گیا ہے۔ وہ 1930ء کی دہائی میں نازی سوشلسٹوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے جرمنی سے ہجرت کر کے فرانس میں آباد ہوا تھا۔ وہ پیرس کے نواحی علاقے میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر ہے اور وہ خود کو صرف گھر کے اندر ہی محفوظ تصور کرتا ہے۔
ماکس ہوف من کے بقول یہ 1994ء اور 1995ء کا واقعہ ہے اور اس دوران یہ بوڑھا شخص انتقال کر چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کو بیس سال گزر چکے ہیں اور آج بھی فرانس میں سامیت دشمن واقعات پہلے کی طرح رونما ہوتے ہیں۔ ان کے بقول فرانسیسی معاشرے میں یہودیوں کی مخالفت کینسر کے مرض کی طرح پھیل رہی ہے اور عوام اس معاملے پر اِس طرح تقسیم ہو چکے ہیں کہ مسئلے کو کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔
متعدد سیاستدانوں کا مؤقف ہے کہ فرانس میں سامیت دشمنی کے پیچھے صرف چند افراد ہی نہیں ہیں۔ فرانس کے IFOP نامی ایک تحقیقی ادارے کے جائزے کے نتائج بڑے ہی حیرت انگیز ہیں۔ اس جائزے میں شامل 25 فیصد افراد کا خیال ہے کہ فرانس کے اقتصادی اور مالیاتی شعبوں میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس طرح کے نظریات مسلمانوں سے زیادہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے حامیوں کے تھے اور ان میں سب سے نمایاں نیشنل فرنٹ نامی جماعت ہے۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ جب کسی معاشرے میں اس طرح کا سرطان پھیلنا شروع ہو تو سیاستدانوں کو اسے قابو کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ آزمانہ چاہیے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا چاہیے، آگاہی اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے منصوبے شروع کرنے چاہییں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس حوالے سے سب سے ضروری یہ ہے کہ فرانس کو اپنی کمزور ہوتی ہوئی اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنا ہو گا۔کیونکہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کو مستقبل کے حوالے سے ناامیدی کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے سامیت دشمنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ماکس ہوف من کے بقول اگر اس مسئلے پر قابو نہ پا گیا تو یہ ملکی معیشت کی بہتری کے راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔