1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس کی ڈھائی ہزار مساجد میں دہشت گردی کی مذمت

مقبول ملک18 نومبر 2015

فرانسیسی مسلمانوں کی مرکزی تنظیم نے کہا ہے کہ پیرس میں تیرہ نومبر کے خون ریز حملوں سمیت ہر طرح کی دہشت گردی کی بیس نومبر کے روز جمعے کے خطبات کے دوران ملک کی تمام ڈھائی ہزار مساجد میں بھرپور مذمت کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1H7uF
Die Große Moschee in Straßburg wird eingeweiht
فرانسیسی شہر اسٹراسبرگ کی جامع مسجدتصویر: picture-alliance/dpa

پیرس سے بدھ 18 نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم CFCM کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ کونسل اور فرانسیسی مسلم برادری پیرس میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کر چکے ہیں لیکن آئندہ جمعے کے روز یہی دہشت گردی پورے ملک کی تمام مساجد میں جمعے کے خطبوں کا مرکزی موضوع ہو گی، جس دوران ان حملوں کی کھل کر مذمت کی جائے گی۔

فرانسیسی زبان میں اس تنظیم کے نام کا مخفف CFCM ہے، جو انگریزی میں فرنچ مسلم کونسل کہلاتی ہے۔ اس کونسل نے آج اپنے ایک اعلان میں کہا، ’’(آئندہ) جمعے کے خطبوں میں پیرس حملوں کے تناظر میں ہر قسم کی دہشت گردی اور تشدد کی ہر ممکنہ شکل کی مذمت کی جائے گی، یوں کہ اس حوالے سے کسی بھی طرح کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔‘‘

انتہا پسندوں کی مساجد کی بندش

فرانس میں تیرہ نومبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، جن میں کم از کم 129 افراد ہلاک ہوئے، عوامی سطح پر بہت غم و غصہ اور جذباتی ماحول دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ صدر فرانسوا اولانڈ ابتدائی طور پر تین ماہ کے لیے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کے بعد اب ایسے نئے اقدامات کو حتمی شکل دینے کی کوششوں میں ہیں، جن کے لیے قومی پارلیمان سے باقاعدہ منظوری لی جائے گی۔

دوسری طرف اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ خدشات بھی اپنی جگہ ہیں کہ ان نئے اقدامات کی صورت میں فرانس میں بھی اسی طرح کی قانون سازی دیکھنے میں آ سکتی ہے، جیسی کہ امریکا میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دیکھنے میں آئی تھی اور جو غیر متنازعہ نہیں ہو گی۔

Frankreich Sicherheitsmaßnahmen Polizist Moschee
پیرس کی ایک مسجد اور اس کے باہر جمعے کی نماز کے وقت حفاظتی فرائض انجام دینے والا ایک فرانسیسی سکیورٹی اہلکارتصویر: REUTERS/Youssef Boudlal

صدر فرانسوا اولانڈ اپنے ایک حالیہ خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کے نئے قانونی اور سکیورٹی اقدامات کے تحت یہ ممکن ہو جائے گا کہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن جانے والے غیر ملکیوں کو آسانی سے ملک بدر کر دیا جائے اور انتہا پسندانہ نظریات کی حوصلہ افزائی کرنے والی مساجد کو بلاتاخیر بند کر دیا جائے۔

فرانسیسی صدر کے ان ارادوں کے سامنے آنے کے فوری بعد ملکی عدلیہ کے متعدد ارکان اور قانونی ماہرین کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس لیے بھی کہ پیر سولہ نومبر کے روز فرانسیسی پارلیمان کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اولانڈ نے یہ بھی کہا تھا کہ پیرس حملوں کے بعد جس ایک اور شے کو جزوی طور پر نقصان پہنچے گا، وہ فرانسیسیوں کو حاصل ’شہری آزادیاں‘ ہوں گی۔