فرینکفرٹ، سالانہ کتاب میلے کا افتتاح آج
8 اکتوبر 2013برازیل اپنے ہاں نئی نئی شائع ہونے والی 260 کتابیں لے کر فرینکفرٹ کے میلے میں شریک ہو رہا ہے۔ برازیل سے مجموعی طور پر 164 اشاعتی ادارے فرینکفرٹ میں شریک ہوں گے۔ برازیلی وزارت ثقافت نے اپنے ادیبوں اور شاعروں کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کے لیے سن 2020ء تک تقریباً 35 ملین ڈالر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کتاب میلے کے موقع پر پیش کرنے کے لیے برازیل کے ایک سو ناول جرمن زبان میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔
برازیل سے 90 ادیب اس میلے میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں تاہم منتظمین نے اطلاع دی ہے کہ ان ادیبوں میں نامور ادیب پاؤلو کوہلیو (Paolo Kohelio) شامل نہیں ہوں گے۔ کوہلیو میلے میں شرکت نہ کرتے ہوئے دراصل اپنے ملک کی وزارتِ ثقافت کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں فرینکفرٹ میلے میں شرکت کے لیے برازیل کے ادیبوں کے انتخاب پر اعتراض ہے۔ کوہلیو کے مطابق وہ ان ادیبوں میں سے صرف بیس کو جانتے ہیں اور یہ کہ کئی ایسے ادیبوں کو فرینکفرٹ نہیں بھیجا جا رہا، جو اس کے حقدار تھے۔
پورے براعظم لاطینی امریکا کی تقریباً آدھی کتابیں صرف ایک ملک برازیل میں شائع ہوتی ہیں۔ وہاں کے تقریباً 700 اشاعتی اداروں کی سالانہ آمدنی کا اندازہ تقریباً دو ارب یورو لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جرمنی میں کتابوں کی صنعت سے ہونے والی آمدنی تقریباً دَس ارب یورو ہے۔
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ڈائریکٹر یُرگن بوس (Juergen Boos) کے مطابق ’اس تجارتی میلے میں بین الاقوامی رنگ بڑھتا جا رہا ہے‘۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس بار صرف 39 فیصد نمائش کنندگان جرمن زبان بولنے والے خطّوں سے اس میلے میں شریک ہوں گے جبکہ خاص طور پر براعظم ایشیا سے زیادہ بڑی تعداد میں نمائش کنندگان کی شرکت متوقع ہے۔ منتظمین امید کر رہے ہیں کہ پانچ دنوں کے دوران کوئی ڈھائی تا تین لاکھ شائقین اس کتاب میلے کو دیکھنے کے لیے جائیں گے۔
اس سال کے بڑے موضوعات میں سے ایک ’سیلف پبلشنگ‘ ہے۔ چند سال پہلے تک کتابوں کی صنعت ایسے مصنفین کو ناپسندیدگی سے دیکھتی تھی، جو کسی اشاعتی ادارے کے ذریعے نہیں بلکہ خود اپنی کتاب شائع کرتے تھے اور اکثر اوقات اُس کے سارے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’سیلف پبلشنگ‘ کا رجحان اتنا زور پکڑ چکا ہے کہ اس سال صرف اس ایک موضوع پر فرینکفرٹ کے کتاب میلے میں اکٹھے پچاس پروگرام رکھے گئے ہیں۔
اس کتاب میلے میں تیس ملکوں کے 627 ایجنٹ بھی موجود ہوں گے، جن کے درمیان آنے والے کل کی کتابوں کے حقوق خریدنے کے لیے سخت مقابلہ بازی دیکھنے میں آئے گی۔ نیویارک کے ’جرمن بُک آفس‘ کی ڈائریکٹر ریکی اسٹاک (Ricky Stock) نے بتایا کہ اُن کے بہت سے ساتھیوں کی ایک ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ مصنفین کے ساتھ ملاقات طے ہے۔
تیرہ اکتوبر کو میلے کے اختتام پر سفید روس کی منحرف ادیبہ سویتلانا الیکسیوچ (Swetlana Alexijewitsch) کو جرمن بک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے امن انعام سے نوازا جائے گا۔
اس میلے کے دوران ہی گیارہ اکتوبر کو صوبے ہیسے کے فلم اور سینما پرائز 2013 کی تقریبِ تقسیم منعقد ہو گی۔ فرینکفرٹ کتاب میلے کا کسی ادبی شاہکار کو فلمانے کی بہترین کاوش کا دَس ہزار مالیت کا انعام اس سال فلم ’دی اٹیک‘ کے حصے میں آئے گا۔ یہ فلم الجزائر کے اٹھاون سالہ ادیب یاسمینہ خضریٰ کے ایک ناول پر مبنی ہے۔ اس ادیب کا اصل نام محمد مولسھول ہے۔ الجزائر میں سنسر شپ کی پابندیاں زیادہ سخت ہو جانے کے بعد اُنہوں نے اپنی اہلیہ کے نام سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ بعد ازاں جب وہ جلاوطنی اختیار کر کے فرانس میں جا بسے، تب اُنہوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اُن کی اہلیہ نے اُن کے لیے جو صعوبتیں برداشت کی ہیں، اُن کے احترام میں آئندہ وہ مستقل طور پر یہی قلمی نام یعنی یاسمینہ خضریٰ ہی استعمال کریں گے۔
اسی کتاب میلے کے دوران جرمن زبان میں شائع ہونے والے بہترین ناول پر اس سال کا جرمن بُک پرائز بھی دیا جائے گا۔ پچیس ہزار یورو مالیت کے اس انعام کی روایت 2005ء سے چلی آ رہی ہے۔