فرینکفرٹ سمپوزیم سے چینی وفد کا واک آؤٹ
15 ستمبر 2009پروگرام ڈائریکٹر کے جانب سے معذرت کے بعد چینی وفد اس سمپوزیم میں واپس لوٹ آیا۔ کہا جارہا ہے کہ کتاب میلے سے قبل ہی اس قسم کی بدمزگی پتہ دیتی ہے کہ اس میلے کا ماحول کیسا رہے گا۔
فرینکفرٹ عالمی کتاب میلے کے دوران "چین اور باقی ماندہ دنیا،تصور اور حقیقت" نامی اس مباحثے کے آغاز سے قبل پہلے توتحفظ ماحوال کے لئے سرگرم چینی باشندے دائی کنگ کو اس سمپوزیم میں شرکت کی دعوت دی گئی اور اس کے بعد شاعربائی لنگ کو۔ پھر چین کے سرکاری وفد کی جانب سے کتابی میلے میں شرکت نہ کرنے کی دھمکی کے بعد دونوں ماہرین کی اس سمپوزیم میں شرکت کو منسوخ کردی گئی۔
جرمنی میں چینی وفد کے اس رویہ کی وجہ سے کافی ہنگامہ دیکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے کئی سیاستدانوں اور قلمکاروں کا خیال ہے کہ اس پروگرام کے منتظمین چینی حکومت کی سینسر شپ کی سیاست کے سامنے جھک رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مصنفین کی پین نامی ایک تنظیم بھی سخت نالاں ہے کیوں کہ اس نے دائی کنگ کے اس تقریب میں شرکت کو ممکن بنانے کے لئے ان کے سفری اخراجات کو برداشت کئے تھے۔ دوسرے شرکت کنندہ بئی لنگ نے اپنے اخراجات کو اپنی جیب سے ادا کئے تھے۔ اس میلے کے ڈائریکٹر یورگن بوز کا اصرار ہے کہ چین ایک اہم پارٹنر ملک ہے اور اس حوالے سے مذاکرات کی ضرورت موجود ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے کے عالمی کتابی میلے پر زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لئے رکھی جانے والی مصنوعات پر کوئی روک ٹوک نہیں لگائی جاسکتی۔ اس نمائش کا مقصد الفاظ کی آزادی ہے۔
فرینکفرٹ میں جس سمپوزیم کے دوران یہ واقعہ پیش آیا اس کا آغاز ہفتے کے روز ہوا تھا۔ اس تقریب میں جب دائی کنگ اور بئی لنگ کو سٹیج پر بلانے کا اعلان کیا گیا تو چینی وفد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اس پروگرام میں شرکت سے انکار کردیا۔ اس کے کچھ دیر بعد تک چینی وفد سے مذاکرات کئے گئے اور پھر یورگن بوز نے ان دونوں افراد سے معذرت کرلی اور ان کی پروگرام میں شرکت منسوخ کردی گئی۔
اس حوالے سے چینی وفد کے سربراہ مائی ژاورونگ کا کہنا ہے :"چینی وفد اس تقریب سے احتجاجا اس لئے چلا گیا کیوں کہ ہمیں یہ محسوس ہوا کے ہمارے ساتھ برتا جانے والا رویہ نامناسب تھا"۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں افراد چین کے 1.3 بلین کی آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے۔
رپورٹ: میرا جمال
ادارت: مقبول ملک