فضائی آلودگی سے سالانہ تیس لاکھ ہلاکتیں
13 مئی 2016عالمی ادارہ صحت ’ ڈبلیو ایچ او‘ نے اپنے ایک بیان میں ارباب اقتدار سے گزارش کی ہے کہ وہ فضائی آلودگی کے موضوع کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کوششیں کریں۔ اس ادارے نے اس موضوع پر ایک جائزے پیش کرتے ہوئے صورتحال سے خبردار کیا ہے۔ اس جائزے کے مطابق آلودہ فضا خاص طور پر شہروں کے باسیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کی اسی فیصد آبادی کو خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے فالج، دل کا دورہ اور پھیپڑوں کے سرطان جیسی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سوئس شہر جنیوا میں پیش کی جانے والے اس رپورٹ میں ڈبلیو ایچ اور نے دنیا کے تین ہزار سے زائد مقامات میں فضا میں موجود انتہائی باریک گرد یا ذرات کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔ ماہرین کے مطابق انتہائی باریک گرد قدرتی ذریعے سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ریگستانی علاقے صحاراکی مٹی اور بہار اور خزاں کے موسم میں درختوں سے اڑنے والے پولن۔ ڈبلیو ایچ او کی ماہر فلاویا بسترویو کہتی ہیں،’’فضائی آلودگی بیماری اور ہلاکتوں کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر کسی بھی شہر کے کم عمر اور عمر رسیدہ افراد ہی بنتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ دنیا کے بڑے شہروں میں گزشتہ برسوں کے دوران فضائی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ رفتار انتہائی تشویش ناک ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک اور ماہر ماریا نیئیرا کے مطابق، ’’یہ صورتحال خاص طور پر غریب ممالک کے بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘ اس جائزے کے مطابق بحیرہ روم سے جنوب میں اور جنوبی ایشیا کے شہروں میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ امیر ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں میں آلودگی کی شرح ڈبیلو ایچ او کی تجویز کردہ شرح سے کم ہی ہے۔
اس موقع پر عالمی ادارہ صحت نے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قابل تجدید ذرائع سےحاصل ہونے والی توانائی کے استعمال کو بڑھایا جائے اور ٹریفک کے حوالے سے متبادل منصوبے متعارف کرائے جائیں۔ اس سلسلے میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ علاقائی اور شہروں کی سطح پر فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں۔