فلسطین میں عام انتخابات کے لیے فتح اور حماس میں اتفاق
25 ستمبر 2020فلسطین میں ایک دوسرے کی سخت حریف جماعتوں، فتح اور حماس، نے جمعرات 24 ستمبر کو آئندہ چھ ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت فتح موومنٹ کا مغربی کنارے پر کنٹرول ہے جبکہ اس کی حریف جماعت حماس، غزہ کے علاقے پر برسوں سے حکومت کرتی رہی ہے۔ اس حوالے سے فریقین کے درمیان ترکی کے شہر استنبول میں گزشتہ دو روز سے بات چیت چل رہی تھی جس کے بعد یہ اعلان ہوا ہے۔
فلسطین کی دو اہم سیاسی جماعتوں فتح اور حماس گزشتہ ایک عشرے بھی زیادہ وقت سے آپسی اختلافات سے دوچار تھیں اور انہیں اختلافات کے خاتمے کے لیے ترکی میں بات چیت چل رہی تھی۔ حال ہی میں خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا ہے اور اس پس منظر میں ان دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک متحدہ محاذ پیش کرنے کی یہ ایک نئی کوشش ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں حماس کی جانب سے سمیع ابو ظہری نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''اس بار ہم میں حقیقی معنوں میں اتفاق ہوا ہے۔ اختلافات کی وجہ سے ہمارے قومی مفاد کو کافی نقصان پہنچا ہے اور ہم انہیں ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔''
فتح کے ترجمان جبرئیل الرجب نے بھی نیوز ایجنسی روئٹرز سے بات چیت میں اس کی تصدیق کی اور کہا کہ صدر محمود عباس انتخابات کی تاریخ سے متعلق جلدی ہی ایک بیان جاری کریں گے۔''
اختلاف و تقسیم کا ایک طویل دور
فتح اور حماس کے درمیان سن 2007 میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس کے سبب دونوں میں خونریز جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ اسی وقت سے فلسطین کے ایک علاقے غزہ پر حماس کی حکومت قائم ہے جبکہ مغربی کنارے کے علاقوں پر فتح کا کنٹرول ہے۔ اس دوران دونوں گروپوں میں کئی بار صلح کرانے کی کوشش کی گئی تاہم متعدد بار اتفاق کے باوجود کوئی بھی معاہدہ دیر پا ثابت نہیں ہوا۔
پر امن اتحاد کے لیے فریقین کے درمیان سن 2012 میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا اور پھر کئی حلقوں کی کوششو ں کے سبب دو برس بعد ایک متحدہ حکومت کے قیام کی بھی کوشش کی گئی تاہم یہ مخلوط حکومت بھی کچھ ہی وقت قائم رہ سکی اور پھر اس کا شیرازہ بکھر گیا۔
اسرائیل اور کئی مغربی ممالک نے حماس کو شدت پسند تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ سن 2006 میں حماس نے عام انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور تبھی سے اختلافات کا آغاز ہوا جب حماس نے فتح کو غزہ کے علاقے سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران مغربی کنارے میں واقع رملہ سے صدر محمود عباس فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ اس طرح مقبوضہ علاقوں میں گزشتہ 14 برسوں سے انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔
مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم اسرائیل کے رویے اور اختلافات کے سبب ان تمام کوششوں کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں جو غیر قانونی بسیتاں بساتا رہا ہے ان کے مستقبل پر فریقین میں جہاں اختلافات ہیں وہیں یروشلم پر بھی دونوں میں شدید اختلافات ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ان فلسطینی پناہ گزینوں کا ہے جو برسوں سے دوسرے علاقوں میں مقیم ہیں اور سوال یہ ہے کہ انہیں اپنے علاقوں میں واپسی کا حق دیا جائے گا یا نہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی،روئٹرز)