فلسطینیوں نے خود کو ’تصادم کی راہ‘ پر ڈال لیا ہے، نیتن یاہو
4 جنوری 2015فلسطینیوں کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خود مختار فسلطینی ریاست کے حصول کے سلسلے میں ایک قرارداد جمع کرائی گئی تھی جو ایک ووٹ کے فرق سے منظور نہ ہو پائی۔ اس پیشرفت کے فوری بعد فلسطینیوں نے جمعہ دو دسمبر کو ICC کی رکنیت کے لیے درخواست دے دی تھی۔ امریکا اور اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے اس فیصلے کے شدید مخالف ہیں۔
اگر فلسطینی اتھارٹی کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی رُکنیت مِل جاتی ہے تو وہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت اس عدالت میں مقدمات دائر کر سکتی ہے۔ اس حق کو یہودی ریاست اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا قبضہ ختم کرانے کے لیے بطور دباؤ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی رکنیت کے لیے فلسطینیوں کی درخواست کے اگلے ہی روز یعنی ہفتہ تین دسمبر کو اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ فسلطینیوں کا جمع کردہ ٹیکس فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرنے کا سلسلہ روک رہا ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں کی جانب سے ہر ماہ کئی ملین امریکی ڈالرز کے برابر ٹیکس جمع کرتا ہے۔ اسرائیل پہلے بھی فلسطینیوں کی ٹیکس کی اس رقم کی فلسطینی اتھارٹی کو منتقلی معطل کر کے بطور تادیبی اقدام استعمال کر چکا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل نے محض گزشتہ ماہ کے دوران فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے 127 ملین ڈالرز کے ٹیکس جمع کیے۔
فلسطین کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار صائب عریقات نے اس اسرائیلی اقدام کو ’جنگی جرم‘ قرار دیا ہے۔ عریقات کا کہنا تھا، ’’اسرائیل ایک مرتبہ پھر ہمارے قانونی اقدامات کا جواب مزید غیر قانونی اجتماعی سزا کے طور پر دے رہا ہے۔ روکی جانے والی رقم اسرائیلی خیرات نہیں ہے جو وہ فلسطینی لوگوں کو دے رہا ہے۔ یہ ہماری اپنی رقم ہے جو قانونی طور پر ہماری ہے۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کا آج اتوار کے روز اپنی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ ’’اسرائیلی فوجیوں یا کمانڈروں کو دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں گھسیٹا جائے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اسرائیلی فوجی اسرائیلی ریاست کا دفاع بھرپور عزم اور قوت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔۔۔ اور ہم ان کا اسی طرح دفاع کریں گے جیسا وہ ہمارا کرتے ہیں۔‘‘