فوجی تسلط کے شکار میانمار میں سات نومبر کو انتخابات
13 اگست 2010میانمار کی فوجی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ انتخابات کی تاریخ اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کی نظر بندی ختم ہونے کی تاریخ سے محض ایک ہفتہ قبل کی ہے۔ اس لئے سیاسی مبصرین کے مطابق فوجی حکومت کی طرف سے انتخابات کی یہ تاریخ رکھنے کا مقصد گزشتہ 20 برس کا زیادہ تر حصہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی آنگ سان سوچی کو ان الیکشنز سے دور رکھنے کی دانستہ کوشش ہے۔ فوجی حکمران آنگ سان سوچی کو ایک جمہوری رہنما کی حیثیت سے اپنی بقا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ سوچی کی موجودہ 18 ماہ کی نظربندی 13 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔
آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے 1990ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم ان کی جماعت کو کبھی بھی حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم NLD نے یہ کہتے ہوئے کہ انتخابات کے لئے بنائے جانے والے قوانین غیرمنصفانہ ہیں، موجودہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کیا انتخابات میں میانمار کے فوجی حکمرانوں کی من پسند حکومت وجود میں آنے کی صورت میں آنگ سان سوچی کو رہا کیا جا سکتا ہے، اس سوال کے جواب میں لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والے میانمار سے متعلق معاملات کے ماہر مونگ زانی کا کہنا تھا: " میرا نہیں خیال کہ ملٹری حکومت پر کسی طرح کا سنجیدہ بین الاقوامی دباؤ ہے کہ جس کی وجہ سے وہ آنگ سان سوچی کو یا دیگر 20 ہزار سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی حکومت کو بین الاقوامی طور پر وہ سب کچھ دستیاب ہے، جس کی اسے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ضرورت ہے۔ اس میں سیاسی مدد بھی شامل ہے اور معاشی بھی۔ فوجی حکومت کو ویٹو پاور رکھنے والے سلامتی کونسل کے دوارکان روس اور چین کا تعاون حاصل ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے بھی اس سے تعلقات ہیں۔ ایسی صورت میں فوجی حکومت کو بظاہر ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ آنگ سان سوچی کو رہا کرے یا سیاسی اصلاحات کے لئے کچھ کرے۔ لہٰذا وہ محض دکھاوے کے انتخابات پر ہی اکتفا کرے گی۔
تاہم NLD کے کچھ ارکان نے نیشنل ڈیموکریٹک فورس کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی ہے، جو کہ آنگ سان سوچی کے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے سے ایک طرح کی بغاوت ہے۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : امجد علی