فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کر دی گئی
22 مارچ 2017انسانی حقوق کی تنظیموں کے خبردار کرنے کے باوجود پاکستانی پارلیمان نے منگل 21 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا بل منظور کر لیا۔ ان تنظیموں کا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار مجرموں کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور فوج کا موقف ہے کہ ملک کے عدالتی نظام کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے اور اس طرح کے مقدموں سے نمنٹنے کے قابل نہیں ہے۔ ججوں کو دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ سنانے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد 2015ء کے اوائل میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ اس عدالتی نظام میں ملزم کو اپنا وکیل خود چننے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ فوج اسے دفاع کے لیے اپنی مرضی سے وکیل دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بھی مقدمے کی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا جبکہ سماعت کا مقام اور وقت بھی اُس وقت تک خفیہ رکھا جاتا ہے، جب تک کے اس عدالت کی جانب سے فیصلہ نہ سنا دیا جائے۔
فوجی عدالتوں میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا جاتا اور یہاں پر تعینات ججوں کے پاس قانون کی ڈگری ہونا بھی لازمی نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی ججوں پر یہ پابندی بھی نہیں ہوتی کہ وہ یہ بتائیں کہ انہوں نے کس بنیاد پر فیصلہ دیا ہے۔
ان عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے 275 فیصلوں میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت دی گئی ہے۔ ان میں سے سترہ سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے جنوری میں کہا تھا کہ وہ فوجی عدالتوں کی میعاد میں توسیع چاہتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ فوجداری عدالتوں کے نظام میں خرابی ہے، جس میں فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔