فوجی کارروائیاں رک گئی ہیں، بشار الاسد کی بان کی مون سے گفتگو
18 اگست 2011شامی صدر کے اس دعوے کے برعکس سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ ملکی فوج اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں مزید کم از کم 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ شامی سماجی کارکنوں کے مطابق بشار الاسد کے خلاف احتجاجی سلسلے کے دوران قریب دو ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ مارے جانے والوں میں لگ بھگ چار سو سکیورٹی اہلکار بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔
بان کی مون اور بشار الاسد کے مابین ٹیلی فون پر جو رابطہ ہوا ہے، اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے شام میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے سلسلے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق کے بقول بان کی مون نے حکومت کے مخالفین کی گرفتاریوں اور فوجی کارروائیوں کے فوری خاتمے پر زور دیا، جس کے جواب میں بشار الاسد نے کہا کہ فوج اور پولیس کی کارروائیاں رُک گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق شامی صدر نے اگلے چند ماہ کے دوران ملک میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا یقین دلایا ہے۔ بان کی مون نے صدر اسد پر زور دیا کہ وہ کسی تاخیر اور فوجی مداخلت کے بغیر یہ اقدامات کریں۔ بان کی مون نے شام میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دمشق حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ کے مشن کے ساتھ تعاون کیے جانے سے متعلق بھی بات کی۔ فرحان حق کے مطابق شامی سربراہ مملکت نے اقوام متحدہ کے مشن کو مختلف مقامات تک رسائی دینے کی حامی بھری ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلئی اور چیف والیریو اموس جمعرات کو سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں شام کی صورتحال کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کریں گی۔ یہ اجلاس عالمی وقت کے مطابق شام سات بجے شروع ہوگا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ناوی پلئی شام کے معاملے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت ICC سے رابطے کو معقول راستہ قرار دے سکتی ہیں۔
بان کی مون کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرنے سے پہلے شامی صدر نے اپنی جماعت بعث پارٹی کے ایک اجلاس میں ملک کو مضبوط رکھنے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اصلاحات کا وعدہ اس لیے کرتے ہیں کہ شامی عوام ان کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
بشار الاسد کے مخالفین ملکی آئین کی شق 8 کی منسوخی چاہتے ہیں، جو بعث پارٹی کو شامی معاشرے اور ریاست کی حقیقی قیادت قرار دیتے ہوئے اسے بہت زیادہ اختیارات سے نوازتی ہے۔ بشار الاسد کی جانب سے مخالفین کے مظاہروں کو طاقت سے دبانے کی مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب برادری اور ترکی بھی مذمت کر رہے ہیں۔ ایران اور وینزویلا کی قیادت البتہ اس بات کو شام کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک