فوجیوں کی جانب سے تشدد، ویڈیو اصلی ہے، انڈونیشیا
23 اکتوبر 2010انڈونیشیا کے وزیر برائے سکیورٹی امور Djoko Suyanto نے صحافیوں کو بتایا، ’ابتدائی رپورٹوں کے مطابق ہمیں پتا چلا ہے کہ فوجیوں نے گرفتار افراد کے ساتھ برتاؤ میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث فوجیوں کے خلاف عسکری قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ’اسے عوامی اور عالمی توجہ حاصل ہوئی ہے، ہم اس سے اچھی طرح نمٹیں گے۔‘
اس ویڈیو میں فوجیوں کو دوران تفتیش ایک غیرمسلح شخص کے نازک اعضا پر جلتی ہوئی چھڑی لگاتے ہوئے دکھایا گیا جبکہ دوسرے شخص کو وہ چاقو دکھاتے ہوئے دھمکا رہے ہیں۔ دراصل وہ ان سے چھپائے گئے ہتھیاروں کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقع رواں برس مئی میں انڈونیشیا کے صوبے پاپوا میں پیش آیا۔ فوجیوں کے اس رویے کو توہین آمیز بھی قرار دیا گیا۔
یہ ویڈیو عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہی ہے، جس سے پاپوا اور ملوکو جزائر سمیت انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں شہریوں کے خلاف زیادتی اور ہتک آمیز رویوں کے الزامات کو تقویت ملتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے مطالبہ کیا تھا کہ انڈونیشیا اس ویڈیو میں دکھائی دینے والے نامعلوم فوجیوں کے خلاف تفتیش کرے اور انہیں سزائیں دے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کی سکیورٹی فورسز میں سزا سے بے خوفی کا کلچر پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب امریکی حکومت نے جمعہ کو کہا کہ یہ واقع عسکری تعلقات کی بحالی پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ واشنگٹن حکام نے اس ویڈیو کی تفتیش پر جکارتہ حکام کو سراہا اور کہا کہ انڈونیشیا میں ایلیٹ ملٹری یونٹ کی تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ حکومت اس معاملے کی تفتیش کے لئے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو مقرر کرے اور اس کے نتائج کو شائع کرے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ تفتیش کاروں، ظلم کا نشانہ بننے والوں، گواہوں اور ان کے خاندان کے افراد کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈونا گیسٹ کا کہنا ہے، ’حکام کو انڈونیشیا کی تمام سکیورٹی فورسز کو واضح پیغام دینا ہو گا، بالخصوص پاپوا میں، کہ تشدد اور خراب برتاؤ سختی سے منع ہے اور اگر ایسا دیکھا گیا تو اس کی تفتیش مجرمانہ فعل کے طور پر کی جائے گی۔‘
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف توقیر