فوکوشیما حادثے کے چھ سال، خواتین اور بچے سب سے زیاہ متاثر
11 مارچ 2017چھ سال قبل جاپان کو ایک ساتھ تین بحرانوں کو سامنا کرنا پڑا۔ پہلے زلزلہ، پھر سونامی اور آخر میں فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کی تباہی۔ اس دوران تقریباً بیس ہزار جاپانی شہری ہلاک ہوئے جب کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اسی لاکھ شہری ابھی تک عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
گیارہ مارچ 2011ء کو آنے والی اس تباہی کے بارے میں تحفظ ماحول کے لیے سرگرم تنظیم گرین پیس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس حادثے نے متاثرہ طبقوں کے ہر فرد پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں، ’’یہ خواتین اور بچے ہی ہیں، جو اس حادثے کے نتیجے میں سامنے آنے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے صدموں کو آج تک برداشت کر رہے ہیں اور حکام کے خلاف کمر بستہ ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ خواتین اور بچے وہ ہیں، جنہیں حادثے کے فوری بعد حکومت کے ناکافی اقدامات کی وجہ سے نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ وہ ہیں جو موجودہ متاثرہ افراد کو کسی دوسری جگہ بسانے کی حکومتی پالیسی کی ناکامی پر برہم ہیں۔ فوکوشیما کے ارد گرد کے کئی علاقوں میں ابھی بھی تابکاری کی سطح اتنی بلند ہے کہ وہاں رہا نہیں جا سکتا۔ اس سلسلے میں جاپانی حکومت نے زندگی کو تیزی سے معمول پر لانے کے لیے جبری انخلا کے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے متاثرہ شہریوں کو ان کے علاقے میں واپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ان نئی ہدایات پر رواں ماہ کے آخر سے عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
تاہم اس صورتحال میں گرین پیس نے خبردار کیا ہے کہ تابکاری کی سطح ابھی بھی خطرناک ہے۔ گرین پیس نے ٹوکیو حکام پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ شہریوں کو تابکاری سے متاثرہ گھروں میں واپس لوٹنے پر مجبور نہ کرے۔
جاپانی حکومت نقل مکانی کرنے والے افراد کو زر تلافی ادا کر رہی ہے اور ان افراد کے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کے ایک سال بعد علاقے کو محفوظ قرار دیتےہوئے ٹوکیو حکومت یہ رقم دینا بھی بند کر دے گی۔
گرین پیس کے مطابق جن خواتین نے تابکاری سے آلودہ علاقے چھوڑے ہیں، ان پر’’ نا فہم اوراعصابی مریض‘‘ کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے۔ ان خواتین کے مطابق حکومت کے خلاف مقدمے کا تعلق صرف مالی مدد یا زر تلافی سے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اخلاقی طور پر مطمئن ہونا بھی ہے۔ ایم ایس سونودا نامی ایک خاتون کے بقول،’’میں عدالت میں جانا چاہتی ہوں اور مجھے علم ہے کہ اپنے بچوں کو متاثرہ علاقے سے نکالنا میرا حق ہے۔‘‘ سونودا اپنے بچوں کو لے کر فوکوشیما سے انگلینڈ منتقل ہو گئی ہیں۔