فیس ماسک کی جعل سازی، پولیس کی کارروائی
15 اپریل 2020یوروپول کے مطابق جرمن حکام پندرہ ملین یورو کے ماسک کا آرڈر دینے والے تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ ان ماسکس کا حقیقی طور پر کہیں کوئی نام و نشان ہی نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں جرمنی، اسپین، ہالینڈ، آئرلینڈ اور برطانیہ میں تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور اب تک کم از کم دو افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
کووِڈ انیس کی عالمی وبا کے تناظر میں دنیا بھر کے ممالک حفاظتی ساز و سامان خریدنے کی کوشش میں ہیں اور ایسے میں مختلف حکومتیں بیرون ممالک سے زندگیاں بچانے والے یہ احتیاطی آلات و سامان خرید رہی ہیں۔
تاہم یورو پول کاکہنا ہے کہ جرمن حکام مارچ کے وسط میں قریب 15 ملین یورو کے فیس ماسک خرید رہے تھے اور اس سلسلے میں آن لائن دو کمپنیوں سے بات چیت بھی کی گئی تھی۔
ان جرمن خریداروں نے اسپین کی ایک کمپنی سے بھی رابطہ کیا، جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس دس ملین یورو کے ماسک ذخیرہ ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ویب سائٹ اسپین کی ایک قانونی کمپنی کا چربہ کر کے بنائی گئی جعلی ویب سائٹ تھی۔
بتایا گیا ہے کہ چوں کہ اس کمپنی کے پاس پندرہ ملین یورو کے بجائے صرف دس ملین یورو کی مالیت کے ماسکس تھے، اس لیے یہ کمپنی ماسکس فراہم نہ کر پائی، تو اس نے جرمن خریداروں کو آئرلینڈ میں ایک 'بااعتماد ڈیلر‘ سے رابطے کا کہا، جب کہ اس دوران ڈیلر نے انہیں ہالینڈ میں قائم ایک کمپنی سے رابطہ بھی کروایا۔ اس ڈچ کمپنی نے جرمن حکام سے کہا کہ وہ انہیں 15 ملین یورو کے ماسکس مہیا کر دے گی، تاہم اس کے لیے پہلے ایک اعشاریہ پانچ ملین یورو پیشگی ادا کیے جائیں۔
ڈیلیوری سے قبل ڈچ کمپنی کی جانب سے جرمن خریداروں سے کہا گیا کہ اسے اب تک رقم موصول نہیں ہوئی ہے، اس لیے فوری طور پر آٹھ لاکھ اسی ہزار یورو بھیجے جائیں۔ بتایا گیا ہے کہ ڈچ کمپنی تو اصل تھی، مگر ان لائن جعل سازوں نے اس کی جعلی ویب سائٹ بنا رکھی تھی۔ اس لیے یہ ماسک کبھی موصول نہیں ہوئے۔
یوروپول کے مطابق خریداروں کو لگا کہ انہیں دھوکا دیا جا رہا ہے، تو انہوں نے فوراﹰجرمن بینکوں سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد کئی ممالک اس معاملے میں پڑ گئے اور ان پیسوں کی ترسیل روک دی گئی اور منی ٹریل پکڑ لی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام پیسے نائجیریا جا رہے تھے۔
اس معاملے میں ہالینڈ میں دو افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جب کہ آئرش اور برطانوی میڈیا کے مطابق اس جعل سازی سے تعلق کے شبے میں ایک آئرش شہری سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
ع ت، ب ج (روبیکا اشٹاؤڈن مائر)