قدرتی آفات سے متعلق نئی رپورٹ: جنوبی ایشیا کے شہر خطرے میں
24 مارچ 2016یہ رپورٹ ویرسک میپل کرافٹ نامی ایک نجی ادارے کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا بھر کے ملکوں اور بڑے شہروں کو سمندری طوفانوں سے لے کر زلزلوں تک کئی قدرتی آفات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زیادہ تواتر کے ساتھ آنے والے سیلاب بھی انسانوں کے لیے مصائب کا باعث بن سکتے ہیں لیکن یہ کہ سب صحارا افریقہ کے ممالک کو قدرتی آفات سے کہیں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں پاکستان میں ستر فیصد آبادی قدرتی آفات سے متاثر ہو سکتی ہے، وہاں بھارت میں یہ شرح بیاسی فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں تو اکٹھے ایک سو فیصد ہے۔ قدرتی آفات سے ایشیا میں جن دیگر ملکوں کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں، اُن میں چین، انڈونیشیا، جاپان اور فلپائن بھی شامل ہیں۔ جن دس ممالک کو قدرتی آفات کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے، اُن میں ریاست ہائے متحدہ امریکا، میکسیکو اور برازیل بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قدرتی آفات کے باعث جس براعظم کے باسیوں کے زخمی ہونے، بیمار ہو جانے یا موت کا شکار ہو جانے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں، وہ براعظم افریقہ ہے کیونکہ وہاں ایسی آفات سے نمٹنے کی اہلیت سب سے کم ہے۔
اس رپورٹ میں جن دس ممالک کو قدرتی آفات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک قرار دیا گیا ہے، اُن میں سے نو ممالک سب صحارا افریقہ میں ہیں جبکہ پچیس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے تئیس ممالک افریقی براعظم میں ہیں۔
خشک سالی اور جنگ کا شکار جنوبی سوڈان اُن ممالک میں سرِ فہرست ہے، جن میں قدرتی آفات کے خلاف اپنے بچاؤ کی اہلیت سب سے کم ہے۔ اس کے بعد برونڈی، افغانستان، اریٹریا، چاڈ، نائجر، سوڈان، مالی اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کے نام آتے ہیں۔
جو بڑے شہر قدرتی آفات کے نتیجے میں سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کر سکتے ہیں، اُن میں فلپائن کا دارالحکومت منیلا سرِ فہرست ہے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ٹوکیو اور جکارتہ کے نام ہیں۔ اس فہرست میں اس کے فوراً بعد جنوبی چینی شہر ڈونگوآن، ڈھاکا اور کولکتہ کے بھی نام درج ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق میکسیکو سٹی، نئی دہلی اور برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو کی بڑی بڑی آبادیاں بڑے طوفانوں کے آگے بے بس ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان قدرتی آفات کی شدت کو تو کم نہیں کیا جا سکتا البتہ حسنِ انتظام سے ان کی تباہ کاریوں کو ضرور کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے میں تمام متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مرتبین کے مطابق ایسا نہ ہوا تو بھارت اور فلپائن جیسے ممالک میں مستقبل قریب میں حالات میں کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔