قدیم انسان کے ڈی این اے کی ترتیب مل گئی
31 جولائی 2010برف میں دھنس جانے کے سبب مکمل حالت میں ملنے والے اس انسانی جسم کو پانچ ہزار سال قبل کی زندگی کا ایک اہم نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اب سائنسدانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ بہت جلد اس دور کے انسان کے بارے میں حیاتیاتی حوالے سے بعض بہت بنیادی اور اہم سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
جرمن ہائیکرز کی ایک ٹیم نے اس پانچ ہزار برس پرانے انسان کو1991ء میں دریافت کیا تھا،جسے اوئٹسی کا نام دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک سائنسدان مسلسل اس پر تحقیق کررہے ہیں۔ اوئٹسی اس وقت اٹلی کے شمالی حصےمیں واقع تیرولی Tiroli نامی آثار قدیمہ سے متعلق ایک عجائب گھر کی زینت ہے۔
"بہت سے لوگ یہ پوچھتے تھے کہ جب اس برفانی انسان سے متعلق اتنا کچھ معلوم ہوچکا ہے تو اب مزید کیا رہ گیا ہے معلوم کرنے کو؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے ہی اوئٹسی پر کافی تحقیق کرچکے ہیں۔"
یہ ہیں البرٹ زنک جو اٹلی میں واقع یورپین اکیڈمی میں حنوط شدہ لاشوں اور اوئٹسی جیسے برفانی انسان اجسام سے متعلق شعبے کے سربراہ ہیں۔ زنک مزید کہتے ہیں، " دراصل ہمارے لئے یہ ایک اہم سوال رہا ہے کہ کیا ہم اس کا ڈی این اے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور اب واقعی ہمارے لئے تحقیق کا ایک نیا جہان کھل گیا ہے، جس میں ہمیں نئے سوالات کے جواب دینا ہیں یا ان پر کام کرنا ہے۔ اس برفانی انسان کے ڈی این اے کی ترتیب معلوم ہونا ایک بہت ہی اہم پیش رفت ہے اور میں اس حوالے سے بہت پرجوش ہوں۔"
ڈی این اے کی ترتیب معلوم ہونے کا مطلب ہے کہ سائنسدانوں کو اب اوئٹسی کی وراثتی یعنی جینیٹک کی بنیاد مل گئی ہے۔ انہیں اس کے ڈی این اے کے بنیادی جوڑوں یعنی Base Pairs کی ترتیب اور بناوٹ معلوم ہوگئی ہے۔
ڈی این اے کی ترتیب معلوم ہونے سے کیا معلومات حاصل ہوسکتی ہیں اس بارے میں البرٹ زنک بتاتے ہیں،
" ہم یقیناﹰ یہ بتا پائیں گے کہ یہ برفانی انسان کیسے محفوظ رہا؟ کیا اس میں ایسے کوئی جینز بھی موجود ہیں جن کا تعلق کسی بیماری سے ہے؟ ہم یہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے کھانے پینے کی عادات کیسی تھیں مثلاﹰ کیا یہ دودھ ہضم کرسکتا تھا؟ یہ ایسی اہم چیزیں ہیں جونسل انسانی کے ارتقاء کے بارے میں جاننے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔"
زنک کے بقول اوئٹسی کے ڈی این اے سے دیگر اہم معلومات کے علاوہ یہ بھی پتا چل سکتا ہے کہ مختلف انسانی بیماریاں مثال کے طور پر ذیابیطس کس طرح وجود میں آئی، اس سے مستقبل میں ان بیماریوں کے علاج کے بارے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سائنسدان یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس کے ڈی این اے کے کوئی عناصر اس علاقے کے انسانوں میں اب بھی موجود ہیں یا نہیں۔
جرمن شہر ہائیڈل برگ میں فیبٹ febit نامی جرمن کمپنی نے اوئٹسی کے ڈی این کی ترتیب معلوم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کمپنی کے بائیوانفارمیٹکس آندریاز کیلر کہتے ہیں کہ ڈی این اے کی ترتیب جاننے کا عمل تومکمل ہوچکا ہے۔
" آپ جانتے ہیں کہ ڈی این اے بیسز کی کل تعداد تین ارب کے قریب ہے، جن کا ہم نے اوئٹسی کے ڈی این اے کی ترتیب سے موازنہ کرنا ہے۔ یہ کام جاری ہے لیکن ابھی اس میں چار ماہ مزید لگ سکتے ہیں۔"
لہٰذا ممکن ہے کہ سال رواں کے اختتام تک سائنسدان پانچ ہزار سال پرانے انسان اوئٹسی کے بارے میں کچھ مزید بھیدوں سے پردہ اٹھا سکیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: ندیم گِل