قدیم دور میں خاندانی قربت سے متعلق نئے حقائق
19 نومبر 2008اسی عہد میں زمین پر آباد انسانوں نے کھیتی باڑی شروع کی تھی اور ان کا رہن سہن ترقی پاتے ہوئے تہذیب کی شکل اختیار کرنے لگا تھا۔ اسی قدیم دورکی چند قبروں سے ملنے والی انسانی لاشوں کےتحقیقی جائزےکے بعد ماہرین ساڑھےچار ہزارسال سے بھی زائد عرصہ پہلے کے انسانی خاندانوں سے متعلق بہت سے حقائق دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پتھر کے زمانے کے بعد کے دور کی اور ایک دوسرے کے قریب بنائی گئی یہ قبریں اور ان میں قریب 4600 برس پرانی انسانی لاشوں کی یہ باقیات ماہرین کو سن 2005 میں جرمنی میں ایک تاریخی مقام سے ملی تھیں۔
یہ جسمانی باقیات 13 ایسے انسانوں کی ہیں جن کے بارے میں جدید ترین ذرائع سے تحقیق کے بعد ماہرین کو پتہ یہ چلا کہ ان کی موت ایک مسلح حملے میں ہوئی تھی۔ ان قبروں میں ہلاک شدگان کی لاشوں کو جوڑوں کی صورت میں اس طرح دفن کیا گیا تھا کہ ان میں سے کئی ایک کے چہرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور بازو بھی ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔
امریکی شہر شکاگو سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی جریدے میں اس حوالے سے ریسرچ کی جو تفصیلات شائع کی گئی ہیں ان کے مطابق انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہزاروں برس پرانی انسانی لاشوں کی باقیات نے ثابت کردیا ہے کہ انسانی تہذیب کی ابتداء کے دور میں بھی خاندانی قربت اور رشتوں کا تصور پایا تو جاتا تھا مگر وہ کیسا تھا۔
یہ لاشیں ایسی قبروں سے دریافت ہوئی تھیں جو سالہا سال تک غیر آباد مٹی کے نیچے دفن تھیں۔ لیکن ان چار میں سے دوقبریں تو اتنی بہتر حالت میں تھیں کہ ان میں دفن لاشوں کی باقیات کے باقاعدہ DNA ٹیسٹ بھی کئےجاسکتے تھے۔ انہی دو قبروں میں سے ایک سے ملنے والی چار لاشوں کا برطانیہ اور آسٹریلیا کے ماہرین نے طویل عرصے تک تحقیقی مطالعہ کیا اور ثابت یہ ہوا کہ دو لاشیں ایک بالغ مرد اور عورت کی تھیں اور دونوں نابالغ انسان ان کے دو بیٹے تھے۔
ان چار لاشوں کو ڈھائی ہزار سال قبل ازمسیح سے بھی پہلے اس طرح سپرد خاک کیا گیا تھا کہ ماں اور باپ دونوں نے دونوں بیٹوں کےہاتھ پکڑرکھے تھے۔ آسٹریلیامیں ایڈیلیڈ یونیورسٹی کےڈاکٹر وولف گانگ ہاک نےاس انداز تدفین سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موت کے بعد بھی اس طرح اکٹھے رہنا اس امرکی غمازی کرتا ہے کہ یہ چار انسان اپنی زندگی میں بھی اکٹھے تھے اور ایک ہی خاندان کے رکن تھے۔ پھر دیگر لاشوں کے ساتھ ساتھ جب ان چار افراد کی جسمانی باقیات کے بھی جینیاتی ٹیسٹ کئے گئے تو یہ طے کرنے میں دیر نہ لگی کہ کس طرح وسطی یورپ کے خطے میں بھی ہزاروں سال قبل خاندان اور اہل خانہ کی ایک دوسرے سے بہت زیادہ قربت کا تصور پایا جاتا تھا۔
2005 میں ان قبروں کی دریافت کے وقت ماہرین کووہاں سے ایسی اشیاء بھی ملی تھیں جن سے ثابت ہو گیا تھاکہ اس دور میں عورتوں اور بچیوں کو دفن کرتے ہوئے ساتھ ہی مختلف جانوروں کے دانتوں سے بنی ہوئئی اشیاء اور مردوں اور لڑکوں کو دفن کرتے ہوئے پتھر سے تراشی گئی کلہاڑیاں بھی ساتھ رکھی جاتی تھیں۔
اس تحقیق کے دوران سائنسدانوں کو ان 13 لاشوں کی باقیات پر پائے جانے والے زخموں کے نشانات سے یہ پتہ بھی چلا کہ زمانہ قدیم کے یہ انسان کسی مسلح حملےمیں شدید زخمی ہونے کےنتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم جس احتیاط اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ انہیں دفن کیا گیا تھا وہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس حملے میں متعلقہ قبیلے کے بہت سے افراد زندہ بچ گئے تھے اور انہوں نے ہی بعد میں ان ہلاک شدگان کو سپرد خاک کیا تھا۔