قرن افریقہ میں قحط کا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں: افریقی ترقیاتی بینک
2 اگست 2011پیر کو اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کابیروکا نے کہا کہ غذائی قلت کے قحط کی شکل اختیار کرنے میں کچھ اور عوامل کا بھی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحران کا محور صومالیہ کے وہ حصے ہیں، جہاں حکومت کی کوئی عملداری نہیں۔
سن 1991 میں طویل عرصے سے برسر اقتدار رہنما محمد زیاد باری کی ایک فوجی انقلاب میں بے دخلی کے بعد سے صومالیہ لاقانونیت اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔
افریقی ترقیاتی بینک کے صدر نے کہا کہ عسکریت پسند تنظیم الشباب قحط کے شکار صومالیہ کے بھوکے عوام تک غیر ملکی امداد کو پہنچنے سے روک کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ الشباب کے زیر قبضہ صومالیہ کے دو جنوبی خطوں میں قحط کا اعلان کیا گیا تھا، جو اب انتہائی وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے اور قرن افریقہ میں لاکھوں افراد بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہیں۔
ڈونلڈ کابیروکا نے کہا، ’’قرن افریقہ میں اس وقت ایک کروڑ لوگوں کو غذائی امداد کی ضرورت ہے اور بیس لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ پانچ لاکھ افراد بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘‘
انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ صومالیہ کے پرامن اور قانون پسند شمالی خطوں مثلاﹰ صومالی لینڈ اور پنٹ لینڈ میں امداد فراہم کرے۔
انہوں نے افریقی یونین فورس کے لیے بھی امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس میں ہتھیاروں اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقی یونین فورس کو اگر مناسب ساز و سامان اور وسائل سے لیس کر دیا جائے تو وہ صومالیہ کے شورش زدہ حصوں میں استحکام لا سکتی ہے، جس کے بعد صومالیہ کے باشندے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے معاملے پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔
سن 1993 میں امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کی صومالیہ میں دخل اندازی کا نتیجہ تباہ کن صورت میں نکلا اور صومالی شورش پسندوں کے ساتھ خونریز جھڑپ میں اقوام متحدہ کی فورس کے دو درجن پاکستانی اور 18 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے۔
موغادیشو کی سڑکوں پر مسرت کا اظہار کرتے عوام کے سامنے بعض مقتول امریکیوں کی لاشیں گھسیٹنے کے بعد امریکہ اقوام متحدہ کی فورس سے نکل گیا تھا۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امتیاز احمد