قزاقستان کے صدر نذربائیف کئی دہائیوں بعد مستعفی
20 مارچ 2019حالیہ چند برسوں میں انہوں نے آئینی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے اپنے کئی اختیارات ملکی پارلیمان کو منتقل کیے تھے۔ سابق سوویت یونین کی اس ریاست کے اٹھہتر سالہ صدر نے اپنے استعفے کا اعلان منگل کے روز کیا۔ اپنے ٹیلی وژن خطاب میں ان کا کہنا تھا، ’’میں نے صدارتی عہدے چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور افراط زر میں اضافے کی وجہ سے نذربائیف نے چند ہفتے قبل ملکی حکومت کو برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قزاقستان کے ایک بڑے تجارتی پارٹنر روس کے خلاف مغربی پابندیوں نے اس ملک کی معیشت کو بھی متاثر اور حکومت میں بے چینی پیدا کی ہے۔ آئین کے مطابق نذربائیف نے بقیہ مدت صدارت کے لیے ایوان بالا کے اسپیکر اور اپنے قریبی ساتھی قاسم جومارت توکائیف کو قائم مقام صدر منتخب کیا ہے۔ ان کی مدت صدارت مارچ دو ہزار بیس میں ختم ہو گی۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بدعنوانی
نذر بائیف کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اسی وقت بن گئے تھے، جب قزاقستان 1989ء میں ابھی سوویت یونین کے زیر انتظام تھا۔ اس کے ایک برس بعد ہی وہ اس نئی آزاد اور خود مختار ریاست کے صدر بن گئے تھے۔ بعد ازاں ہر مرتبہ وہ نوے فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوتے رہے ہیں اور اس حوالے سے ان پر انتخابات میں دھاندلی کے شدید الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ ان پر کرپشن کو فروغ دینے، اپنے مخالفین کی آوازوں کو خاموش کروانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
وسطی ایشیائی ریاستیں روسی اور امریکی مسابقت کا ممکنہ میدان
سن دو ہزار دس میں انہوں نے اصلاحات متعارف کروانے کا سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ ملک میں مزید سیاسی جماعتوں کو متعارف کروایا جا سکے۔ سن دو ہزار سترہ میں انہوں نے آئینی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے اپنے متعدد اختیارات ملکی پارلیمان کے حوالے کر دیے تھے۔ نذر بائیف کو اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا بھی کریڈٹ دیا جاتا ہے جب کہ ان کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی قریبی روابط ہیں۔
قزاقستان آزاد تجارتی بلاک ’یورو ایشین اکنامک یونین‘ (ای اے ای یو) کا رکن بھی ہے۔ اس بلاک میں روس اور بیلاروس بھی شامل ہیں۔
ا ا / ش ح (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)