قصہ کرسی کا
3 اکتوبر 2021دکانوں اور جگمگاتے شو رومز میں خریداری کرتے ہوئے اکثر ہماری نظر خوبصورت سامان پر ٹِک جاتی ہے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہو کے فروخت کنندہ پر توجہ مرکوز ہوئی ہو۔ کبھی غور کیا ہو کے وہ سارا وقت کھڑے ہی رہتے ہیں۔ یہ کہانی انہی ہمیشہ نظر انداز کیے گئے گمنام اور پسماندہ لوگوں کی ہے جنہیں اپنے طویل اور تھکا دینے والے کام کے اوقات میں محض کچھ لمحے بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔
ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کی حکومت نے رواں ماہ ریاستی اسمبلی میں باضابطہ طور پر ایک بل پیش کیا جس کے تحت دکانوں، سٹورز، تھیٹرز، ریستورانوں اور تجارتی اداروں کو اپنے ملازمین کو بیٹھنے کی سہولیات فراہم کرنا لازمی ہوگا۔ 2019ء میں کیرالہ کے بعد یہ دوسری ریاست ہے جہاں اس حق کو سرکاری مہر مل رہی ہے۔
ایک جنوبی اخبار میں یہ خبر دیکھ کے مجھے یاد آئی 2010 میں ریلیز ہوئی تمل زبان کی ایک فلم،جسے اپنے موضوع اور حساس تصویرکشی کے لیے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔ مشہور فلمساز وسنت بالن کی 'انگاڑی تیرو‘، انگریزی - 'مارکیٹ سٹریٹ' یعنی بازار کی گلی۔ فلم میں دور دراز دیہات کے نوجوانوں کے استحصال پر روشنی ڈالی گئی ہے جنہیں بڑے ادارے بہت کم تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں۔ ان بچارے مردوں اور عورتوں کو کس طرح کے دردناک حالات میں 10 سے 12 گھنٹے روز کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بالن بڑی باریکی کے ساتھ بڑے شو رومز کی چمکتی ہوئی دنیا کے تاریک پہلو پیش کرتے ہیں جہاں ملازمین کے ساتھ کسی ہراستی کیمپ کے غلام مزدور کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔
بالن نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا لیکن یہ بھی کہا کہ یہ تکلیف دہ ہے کہ ایک کارکن کے لیے سٹول یا کرسی فراہم کرنے کے لیے، ایک عام فہم بنیادی انسانی حق کو یقینی بنانے کے لیے، قانون لانا پڑتا ہے۔
سن 2010ء میں ہی کیرالہ کے اداروں کی سیلز ویمن اور کارخانوں اور صفائی کے محکمے کی خواتین ملازمین نے پہلی بار ایک خواتین ٹریڈ یونین قائم کی اور کام کے بہتر حالات کا مطالبہ کیا، جس میں دکانوں میں فروخت کنندگان کے بیٹھنے کا حق بھی شامل تھا۔ 2016ء میں اس مہم نے زور پکڑا جب احتجاج کے پرچم تھامے یہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ 2018ء میں کیرالہ شاپس اینڈ کمرشل اسٹیبلشمنٹ ترمیمی ایکٹ منظور کیا گیا جس میں تجارتی دکانوں میں کام کے بہتر حالات کی ضمانت دی گئی۔ تمل ناڈو کا نیا قانون اسی ترمیم پر مبنی ہے۔
در اصل، تمل ناڈو ملک میں ٹیکسٹائل اور کپڑے کی صنعت کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ زیورات اور ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں اور دوکانوں میں تمل ناڈو کی افرادی قوت کے ارکان کو درپیش مسائل کے بارے میں حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ فیکٹریوں اور دکانوں کے آجر، کارکنوں کو طویل شفٹوں میں کھڑے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لمحے دیوار کے ساتھ پیٹھ ٹکانے تک پر سزا دی جاتی ہے، جرما نے عائد کیے جاتے ہیں۔ انہیں بروقت ٹوائلٹ جانے کی اجازت تک نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس سب کو تشدّد کی ایک شکل قرار دیا جانا چاہیے، لیکن استحصال کا یہ سلسلہ کھلے عام جاری رہتا ہے۔
ہندوستان میں، خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں، ملازمین کے لیے بہتر قوانین اور سہولیات کا مطالبہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ وہ جس کرسی یا سٹول کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ صرف ایک شے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک نظریے سے ہے۔ یہ نیا قانون دکان مالکان کو سرکاری ہدایت کی نمائندگی کرتا ہے کہ وہ ملازمین کے ساتھ احترام سے پیش آئیں، انہیں مناسب تنخواہ ادا کریں، ان سے روزانہ صرف آٹھ گھنٹے ہی کام لیں اور غیر انسانی طرز عمل پر لگام لگائیں۔
حالیہ برسوں میں طویل عرصے تک کھڑے رہنے سے صحت پر پڑنے والے سنگین منفی اثرات کے بارے میں کئی طبی شواہد سامنے آئے ہیں۔ پایا گیا ہے کی خواتین کارکن، مردوں سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اور اس کی وجہ سے بہت سے مغربی ممالک میں مزدور قوانین میں اصلاحات آئی ہیں۔
ایسے کارکنوں کی حالت زار سے متاثر ہو کر تمل ناڈو شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ 1947ء میں ترمیم کی تجویز ہے جس میں چھوٹے اداروں میں کام کی شرائط کا ضابطہ فراہم کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک قابل ستائش قدم ہے لیکن اس میں 75 سال لگے۔ شاید اس بارے میں کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں۔ سٹول پر بیٹھا دکان کا کارکن بہت سے گاہکوں کو غیر سنجیدہ لگتا ہے۔ آجر گاہکوں کی حمایت کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ سیلز پرسن ہر وقت کھڑے رہیں ور ایک اچھا تاثر پیدا کریں۔
حضور کبھی، کسی روز بس آدھا گھنٹے کھڑے رہ کے دیکھیے اور پھر اس وقفے میں 20-25 گنا اضافہ کر دیجیے۔ محسوس کیجیے ان کارکنوں کی تھکان اور پسماندگی کو، ان کی مجبوری اور مایوسی کو۔
کیا ایک سیلز پرسن کو بیٹھنے کا حق ملنا چاہیے؟ کیا اسے دور جدید میں محض بیٹھنے کے حق کے لیے لڑنا ہوگا؟ انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزی ترقی کے لیے وقف ہندوستان کے لیے کیا کہتی ہے؟ تمل ناڈو کا 'بیٹھنے کا حق بل‘ ایک خوش آئند ترمیم ہے۔ اسے ایک قومی حق بننا چاہیے، ایک قبول شدہ انسانی حق بننا چاہیے۔