قطب شمالی کے پگھلتے گلیشیئرز، ناقابل واپسی
13 مئی 2014پیر 12 مئی کو جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق منجمد قطب شمالی کے ارد گرد سمندر کے پانی کا درجہ حرارت بڑھنے کے سبب چھ بڑے گلیشیئرز کا نچلا حصہ پگھل گیا ہے جس باعث یہ سمندر کے اندر ایک جگہ قائم رہنے کی بجائے اب تیزی سے بحیرہ امونڈسن Amundsen Sea میں حرکت کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ 1992ء سے 2011ء کے درمیان راڈار اور سیٹلائٹ سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کے سربراہ اور اس کے مصنف ایرک رِگنوٹ Eric Rignot کے مطابق شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ’قطب شمالی کے مغربی حصے میں موجود برف کی ایک بڑی سطح اس حالت تک پہنچ چکی ہے جہاں سے دوبارہ اس کی اصل شکل میں واپس آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘‘ ایرک رگنوٹ کا تعلق کیفورنیا یونیورسٹی کے علاوہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی پاساڈینا میں قائم جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے ہے۔
رگنوٹ کے مطابق گلیشیئرز کے ساحل کی جانب حصے سمندر کے اندر چٹانی سطح پر جمے ہوئے ہیں جہاں ان کا زیادہ تر وزن قائم ہے اور یہی چیز ان گلیشئرز کو پگھلنے کے حوالے سے خطرے کا شکار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو وائن کی ایک ایسی بوتل سے تشبیہ دی ہے ، جو لمبائی کے رُخ لیٹی ہو اور اس کا کارک اتار دیا جائے۔
ایک ٹیلیفون کانفرنس کے دوران ایرک رگنوٹ کا کہنا تھا کہ قطب شمالی کا یہ حصہ آنے والی دہائیوں اور صدیوں کے دوران سمندر کی سطح میں اضافے کا ایک بڑا سبب ثابت ہو گا۔ کیونکہ ان گلیشیئرز میں اس قدر برف موجود ہے کہ یہ سمندر کی سطح میں چار فٹ تک اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ صورتحال اس نقطے سے آگے بڑھ چکی ہے جسے ہم قابل واپسی قرار دے سکتے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرک رگنوٹ کا کہنا تھا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کا براہ راست تعلق ماحولیاتی حدت سے ہے۔‘‘ سائنسدانوں کے مطابق ضرر رساں گیسوں کا اخراج قطب شمالی کے ارد گرد کی ہوا اور ماحول کو متاثر کر رہی ہیں۔ یہ چیز اس براعظم کے اطراف پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
تقریباﹰ 200 ممالک 2015ء کے اختتام تک اقوام متحدہ کی جانب سے ایک ایسے معاہدے کی تیاری پر اتفاق کر چکے ہیں جس کا مقصد عالمی حدت پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ’انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) کے مطابق عالمی حدت دنیا بھر میں زیادہ سیلابوں، خشک سالی، گرم موسموں اور سمندروں کی سطح میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔