1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر ميں اجلاس، موسمياتی تبديلياں زير بحث

26 نومبر 2012

پير سے قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں موسميات اور ماحوليات کے موضوع پر مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے، جس ميں قريب دو سو ممالک کے مندوبين شرکت کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/16pgd

چھبيس نومبر سے دوحہ کے قطر نيشنل کنوينشن سينٹر ميں ’يونائيٹڈ نيشنز فريم ورک کنوينشن آن کلائيمٹ چينج‘ کا اجلاس ہو رہا ہے، جو سات دسمبر تک جاری رہے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس اجلاس ميں سبز مکانی گيسوں کے اخراج ميں اضافےکے مسئلے پر زيادہ پيش رفت کا امکان نہيں ہے۔

’گرين ہاؤس گيس‘ ماحول ميں شامل ایک ايسی گيس کو کہا جاتا ہے جو تھرمل انفرا ريڈ رينج کے اندر تابکاری کو جذب اور اس کا اخراج کرتی ہے۔

امريکی دارالحکومت واشنگٹن سے منسلک تھنک ٹينک ورلڈ ريسورسز انسٹی ٹيوٹ کے صدر اينڈريو اسٹيئر نے اس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا، ’’صورتحال پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اب ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ موسمياتی تبديلی آنے والے کل کا مسئلہ ہے۔‘‘

اسٹيئر کے بقول گلوبل وارمنگ کے تناظر ميں گزشتہ دنوں امريکا کے مشرقی ساحلی علاقوں سے ٹکرانے والا سينڈی نامی سمندری طوفان کئی امريکيوں کے ليے ايک ’ويک اپ کال‘ کے مترادف تھا۔

اقوام متحدہ کی ايک حاليہ تحقيق کے مطابق گيسوں کے اخراج کی وجہ سے زمين کے درجہ حرارت ميں تين تا پانچ ڈگری سينٹی گريڈ کے اضافے کا امکان ہے۔ اس ممکنہ اضافے سے طوفان، خشک سالی، سطح سمندر ميں اضافہ اور گرمی کی شدت ميں اضافے جيسے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ سن 2011 ميں عالمی طور پر صنعتی ترقی کی رفتار ميں کمی کے باوجود گرين ہاؤس گيسز کے اخراج ميں اضافہ ہوا تھا۔

قطر ميں منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کے بارے ميں اميد کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے موسمياتی تبديليوں سے متعلق سيکريٹيريٹ کی سربراہ کرسٹايانا فيگوئيرس کا کہنا تھا، ’’موسمياتی تبديليوں کے حوالے سے برق رفتار رد عمل ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔‘‘

تاہم ورلڈ وائلڈ لائف فيڈريشن کنزرويشن گروپ کی سمينتھا اسمتھ کچھ زيادہ پر اُميد نہيں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اب تک موسمياتی تبديليوں کے ليے منعقد کيے جانے والے مذاکرات اور اجلاس ہميں وہ نتائج نہيں دے پائے ہيں جو ہميں درکار ہيں۔‘‘

زمين کے درجہ حرارت ميں تين تا پانچ ڈگری سينٹی گريڈ کے اضافے کا امکان ہے
زمين کے درجہ حرارت ميں تين تا پانچ ڈگری سينٹی گريڈ کے اضافے کا امکان ہےتصویر: Phil Walter/Getty Images

نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق زيادہ تر ممالک 1997ء ميں طے شدہ کيوٹو پروٹوکول ميں توسيع کے حق ميں ہيں، جس کے تحت ترقی يافتہ ممالک پابند ہيں کہ وہ سن 1990 کے مقابلے ميں گرين ہاؤس گيس کے اخراج ميں سن 2008 اور 2012ء کے درميان 5.2 فيصد کی کمی کو يقينی بنائيں۔

گزشتہ سالوں ميں روس، جاپان اور کينيڈا اس سمجھوتے سے پيچھے ہٹ چکے ہيں، جس کا مطلب ہے کہ کيوٹو پيکٹ کے تحت اس پابندی کا دائرہ يورپی يونين، آسٹريليا اور چند ديگر ممالک تک محدود ہو کر رہ گيا ہے، جو گرين ہاؤس گيس کے اخراج ميں محض 14 فيصد کے حصے دار ہيں۔

سمجھوتے سے پيچھے ہٹنے والے ملکوں کا مؤقف ہے کہ گرين ہاؤس گيس کے اخراج ميں کمی کو ممکن بنانے کا کوئی فائدہ اس ليے نہيں کيونکہ چين، بھارت، برازيل اور جنوبی افريقہ جيسے ترقی پذير ممالک ميں ان گيسوں کے اخراج کی کوئی حد نہيں۔ امريکا بھی اسی وجہ سے شروع ہی سے کيوٹو پيکٹ کا حصہ نہيں بنا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگر کيوٹو پيکٹ ميں توسيع کی کوششيں ناکام ہو گئيں، تو گرين ہاؤس گيسوں کے اخراج میں کمی کے معاملے پر اقوام متحدہ کے کسی فريم ورک کے بغير ملکوں کی جانب سے محض انفرادی کوششيں ہی باقی رہ جائيں گی۔

as/ab (Reuters)