قطر میں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین تبدیل
22 جولائی 2017قطری امیر تمیم بن حماد الثانی نے گزشتہ روز قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کا ملک ہم سایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ قطری امیر نے قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے عزم پر قائم ہے۔ ان کے بقول قطر انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات اپنے ہم سایہ ممالک کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کرتا ہے کیوں کہ وہ اس پر یقین رکھتا ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ کویت، ترکی اور امریکا کی جانب سے تنازعے کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ الثانی نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ تنازعات کے حل کے لیے بات چیت ہی سودمند راستہ ہے۔ ’’وقت آ گیا ہے کہ ہم حکومتوں کے مابین سیاسی اختلافات سے عوام کو دور رکھیں۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر خلیجی تنازعے کے کسی بھی حل میں قطر کی ’خودمختاری‘ کا احترام کیا جانا چاہیے۔
اس سے قبل قطر کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں ترامیم کر رہا ہے۔ خلیجی تنازعے میں اس معاملے کو انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے۔
قطری خبر رساں ادارے کے مطابق ملکی امیر کی جانب سے دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت سے متعلق نئے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔ قطر نے دہشت گردی سے متعلق ملکی فہرست کے اجراء کا اعلان بھی کیا ہے، جس میں دہشت گردی میں ملوث افراد اور تنظمیوں کو شامل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ جون کی پانچ تاریخ کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے ساتھ تمام تر سفارتی اور سفری تعلقات منتقطع کر دیے تھے جب کہ عملی طور پر اس جزیرہ نما ملک کی ناکہ بندی کر دی گئی تھی۔
خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کو 13 مطالبات کی ایک فہرست پیش کی گئی تھی، جسے قطر نے رد کر دیا تھا۔