قندوز میں حملہ، جرمن فوج تنقید کی زد میں
7 ستمبر 2009جرمن فوج کا کہنا ہے کہ اِن ٹینکروں پر حملے میں محض طالبان باغی ہلاک ہوئے ہیں، تاہم آج متعلقہ افغان علاقے کے گورنر کا کہنا ہے کہ درجنوں شہریوں سمیت کم از کم ایک سو پینتیس افراد مارے گئے، جن میں بچے بھی شامل تھے۔
تین اور چار ستمبر کی درمیانی شب شمالی افغانستان کے قُندوز صوبے میں جو واقعہ پیش آیا، اُس بارے میں مختلف طرح کی آراء ظاہر کی جا رہی ہیں۔ تفصیلات یہ ہیں کہ گذشتہ جمعرات کو باغیوں نے قُندوز میں جرمن فوج کے کیمپ کے قریب پٹرول سے بھرے دو ٹینکر اپنے قبضے میں لے لئے۔ تھوڑی دیر بعد جرمن کیمپ سے کوئی چھ کلومیٹر دور یہ ٹینکر دریائے قُندوز کو عبور کرتے وقت وہاں پھنس گئے۔ چند گھنٹے بعد جرمن کمانڈر کرنل گیورگ کلائن نے فضائی مدد طلب کر لی اور اِن ٹینکرز پر بمباری کروا دی۔ یہ ٹینکر دھماکے سے پھٹ گئے اور جو کوئی بھی قریب تھا، اُس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ جرمن فوج کے مطابق مرنے والوں میں کوئی عام شہری شامل نہیں تھے۔
کرنل کلائن کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے وفاقی جرمن وزیر دفاع فرانس یوزیف یُنگ نے کل اتوار کو کہا: ’’ہمارے فوجیوں کو جن ٹھوس خطرات کا سامنا ہے، اُن کے پیشِ نظر مَیں اُس فیصلے کو، جو وہاں موجود کمانڈر نے کیا ہے، سمجھ بھی سکتا ہوں اور اُس کی حمایت بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ اِس واقعے کی ہر طرح سے تحقیقات ہم ضرور کریں لیکن یہ نہ بھولیں کہ ہمارے سپاہی کن خطرناک حالات میں ہیں۔ اپنے فوجیوں کو خطرات سے بچانے کے لئے بھی سب کچھ کیا جانا چاہیے۔‘‘
اِس وقت جرمنی کو بین الاقوامی سطح پر مختلف سمتوں سے ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ بیرنارد کُشنیر نے اِس حملے کو ’’بڑی غلطی‘‘ قرار دیا ہے۔ سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بِلٹ کہتے ہیں، بہتر ہوتا کہ ’’اِس معاملے کو کسی اور طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔‘‘ امریکی جریدے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے بھی دو درجن عام شہریوں سمیت ایک سو پچیس افراد کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹینکروں پر بمباری کا فیصلہ غلط تھا۔ زیادہ بڑی تعداد میں وہ شہری مارے گئے، جو ٹینکروں سے پٹرول نکال رہے تھے۔
کل اتوار کو ہی وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا: ’’جرمن حکومت اور خود میری ذاتی دلچسپی اِس بات میں ہے کہ جلد نیٹو کی ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے، جو اِس واقعے کی فوری اور جامع تحقیقات کرے اور یہ بھی پتہ چلائے کہ کتنی بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے ہیں۔ اگر واقعی شہری مارے گئے ہیں تو ظاہر ہے مجھے بے حد افسوس ہو گا۔ آپ جانتے ہیں کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہی ہماری پوری حکمتِ عملی کا ہدف ہے۔‘‘
میرکل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اِس سال کے اواخر تک افغانستان کے موضوع پر ایک نئی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جانی چاہیے۔ اِسی دوران طالبان نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو اِس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرنی چاہییں۔
جائزہ: سِلکے بال ویگ / امجد علی
ادارت: کشور مصطفٰی