’ل ل ف‘ : لاہور ادبی میلے کی رونقیں
پاکستانی شہر لاہور میں سالانہ دو روزہ ادبی میلہ بیس فروری کو شروع ہوا تھا اور اکیس فروری کو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اس دوران کتابوں کے اسٹال بھی لگے اور کئی مذاکرے بھی ہوئے، جن میں دنیا بھر سے آئی شخصیات نے شرکت کی۔
بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور بھی
میلے کے پہلے ہی روز افتتاحی تقریب میں بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر معروف صحافی حمید ہارون اور شرمیلا ٹیگور کے درمیان خصوصی مکالمے کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اپنی نوعیت کا چوتھا میلہ
لاہور میں اتوار اکیس فروری کو چوتھا سالانہ ادبی میلہ دو روز تک جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اس میں امریکا، برطانیہ، افغانستان، بھارت اور مصر سمیت دنیا کے کئی ملکوں سے ادیب ، دانشور اور فنکار حصہ لے رہے ہیں۔
ایک سیشن قوالی کی روایت کے نام
اس ادبی میلے کے دوران دیگر فنونِ لطیفہ کو بھی موضوع بنایا گیا۔ ایک مذاکرے میں قوالی کی روایت پر بحث کی گئی، اس مذاکرے میں (دائیں سے بائیں) ممتاز شاعرہ زہرہ نگاہ، عارفہ سیدہ زہرا، ڈاکٹر حسن عزیز اور قاسم جعفری نے شرکت کی۔
بھرپور مکالمت کے مواقع
میلے میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا کے وفود بھی شریک ہوئے اور اُنہوں نے اس میں شریک ادبی شخصیات کے ساتھ دورِ حاضر کے مختلف موضوعات پر تبادلہٴ خیال کیا۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیں۔
متنوع سرگرمیاں
اس میلے کو پہلے الحمرا کلچرل کمپلیکس میں منعقد ہونا تھا تاہم عین آخری لمحات میں دہشت گردی کے خطرات کا حوالہ دے کر میلے کو آواری ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا۔ اس میلے میں کتابوں کے اسٹالز کے ساتھ ساتھ مختلف ادبی اور فلاحی تنظیموں نے بھی اپنے اپنے اسٹال لگا رکھے تھے۔
’گریٹ گیم‘ پر تبادلہٴ خیال
ایک سیشن میں مذہب میں انتہا پسندی اور مشرقِ وُسطیٰ کے تازہ حالات کو موضوع بنایا گیا۔ اس کی میزبانی کئی کتابوں کے مصنف احمد رشید نے کی۔ مہمانوں میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سویڈش پاکستانی ادیب قیصر محمود، کرغیزستان کی سابق صدر روزا ایساکوونا اوتنباویوا، پولٹزر پرائز یافتہ اسٹیو کول اور اطالوی خاتون صحافی ویویانا روزا شریک ہوئیں۔
غیر ملکی ادبی شخصیات کی شرکت
ایک سیشن میں ناول کی صنف کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اس موضوع پر بات چیت کے لیے اسٹیج پر پاکستانی ادیب محمد حنیف کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقی ادیبہ زوکسوا وانر، امریکی فلسطینی مصنفہ سوزن ابوالہوا اور بھارتی نژاد امریکی ناول نگار تانیہ جیمز بھی موجود تھیں۔
کتابوں کے اسٹال بھی
میلے میں گوناگوں موضوعات پر مذاکروں اور مباحثوں کے ساتھ ساتھ ایسے اسٹال بھی لگائے گئے، جہاں شائقین کتابیں دیکھ بھی سکتے تھے اور خرید بھی سکتے تھے۔ شائقین نے ان اسٹالز میں بہت زیادہ دلچسپی لی۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور ممتاز ماہرِ تعمیرات نیر علی دادا کے مطابق دہشت گردی کے خطرات کے باعث میلے کے مقام کو عجلت میں دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا، جس کی وجہ سے کافی مشکلات ہوئیں۔
میلے کے موضوعات میں شائقین کی بھرپور دلچسپی
امسالہ ادبی میلے میں عرب بہار، زبان اور شناخت، فوٹوگرافی کی طاقت، اردو فکشن میں نئے رجحانات، اردو نظم کی روایت، شاعری اور ترجمے کے نئے رجحانات اور ’’پرانے اخبارات و جرائد، ایک گم ہوتا ہوا اثاثہ‘‘ جیسے موضوعات کا احاطہ کیا جا رہا ہے۔ ایک سیشن حال ہی میں انتقال کر جانے والے پاکستان کے معروف ادیب انتظار حسین کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے۔