لالی وڈ کی لو مدھم کیسے پڑی؟
1 مئی 2022جب بات فلم کی ہو تو برصغیر کے افق پر تین شہر اپنی آب و تاب میں ثانی نہیں رکھتے، کلکتہ، بمبئی اور لاہور۔ ان تینوں شہروں کی فلمی صنعت پھلتے پھولتے ٹالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ میں تبدیل ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹالی وڈ اور بالی وڈ روشن تر ہوتے گئے جبکہ لالی وڈ کی لو مدھم پڑنے لگی۔ اس دوران کراچی سے نئے سینما کی کرن پھوٹی جو ریاستی بے اعتنائی اور دہشت گردی کی سوگوار فضا میں امید کا دیا ثابت ہوئی۔ یہ دیا کتنا پائیدار ہے؟ لالی وڈ کی رونقیں کیونکر ماند پڑیں اور کراچی پاکستان کی فلم انڈسٹری کا مرکز بن کیسے بنا؟ آج کا ہمارا موضوع انہی سوالات کے گرد گھومتا ہے۔
کراچی میں پہلی فلم
1955 میں جب کراچی سے پہلی فلم (قومی زبان) ریلیز ہوئی تو لاہور کی فلمی صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے 27 برس بیت چکے تھے۔ اے آر کاردار اور ایم اسماعیل کی جمع پونجی سے مقامی سطح پر لاہور کی پہلی فلم ساز کمپنی یونائیٹڈ پلیئرز کارپوریشن کی بنیاد 1928 میں پڑی، جس نے راوی روڈ کے کنارے اپنا سٹوڈیو قائم کیا اور محض دو سال کے اندر آٹھ کامیاب فلمیں بنا ڈالیں۔ لاہور میں تیس کے دہائی کے دوران سالانہ تقریباً تین چار فلمیں بنتی رہیں، جس میں بعض خاموش جبکہ دیگر کا ذریعہ اظہار اردو یا پنجابی زبان تھی۔
پاکستان فلم میگزین کے مطابق بٹوارے سے قبل لاہور میں 109 فلمیں بنیں (65 اردو/ ہندی، 29 پنجابی اور 15 خاموش)۔ اس موقع پر خزانچی (1941) اور خاندان (1942) خصوصی ذکر کی مستحق ہیں۔ یہ دونوں لاہور کی اولین فلموں میں شامل ہیں، جن کی بازگشت بمبئی اور کلکتہ میں سنی گئی۔ اس میں انتہائی نمایاں کردار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی کا تھا۔
پہلی پاکستانی فلم
تقسیم کے بعد پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد 7 اگست سن 1948 کو میکلوڈ روڈ پر واقع بھات سینما میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ پنچولی فلمز کے بینر تلے بننے والی اس پکچر کے پروڈیوسر سرداری لال ڈی پی سنگھا تھے جبکہ ہدایات کاری کے فرائض داؤد چاند نے انجام دیے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور کی فلمی صنعت کچھ عرصے کے لیے لڑکھڑائی لیکن 1956ء میں 11 سپر ہٹ اور 4 ہٹ فلموں کے بعد اس کا سفر کئی عشروں تک کامیابی سے چلتا رہا۔
بٹوارے کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کی ابتدائی پانچ دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان فلم میگزین کے اعداد و شمار کے مطابق پہلے عشرے میں 129، دوسرے میں 539، تیسرے میں 1056، چوتھے میں 853 اور پانچویں میں 817 فلمیں تیار ہو کر سینما گھروں کی زینت بنیں۔ ان پانچ دہائیوں کے دوران کراچی فلم انڈسٹری کا حصہ محض 133 فلموں تک محدود رہا۔
عروج کے دن
پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کے دنوں میں کراچی کبھی بھی لاہور کی فلمی صنعت کے قریب نہ آ سکا۔ آہستہ آہستہ ناقص سکرپٹ، بے ڈھنگی پروڈکشن، گھسے پٹے موضوعات، سستی جذباتیت، تکنیکی مہارت کے فقدان، وی سی آر کلچر اور ریاستی پالیسیوں کے سبب لاہور کا فلم کلچر زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔
زوال کی وجہ
سات دن محبت اِن اور جیون ہاتھی جیسی کامیاب فلموں کے مصنف فصیح باری خان اس زوال کی کافی حد تک ذمہ داری پروڈیوسر کے سر ڈالتے ہیں۔ وہ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،''وقت تبدیل ہوا، پنجاب تبدیل ہوا، پنجاب کا کلچر تک بدل گیا لیکن فلم پروڈیوسر وہی دقیانوسی قسم کی فارمولا فلمیں بناتے رہے، جسے نئی نسلیں مسترد کرتی گئیں۔‘‘
وہ گولڈن ایج کے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ انہوں نے ون مین شو جاری رکھا اور نئی کھیپ تیار نہیں کی جس کے نتیجے میں انڈسٹری کی باگ ڈور ”غیر پیشہ ور" لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی، ''ایسے لوگوں کی وجہ سے سنسی خیز مناظر سے بھرپور فلموں کا طوفان امڈ آیا، جسے فیملی کے ساتھ دیکھنا ممکن نہ تھا۔‘‘
سینما گھروں کی بندش
دوسری طرف 1983 ء میں وی سی آر کی اجازت مل گئی، جس سے تفریح کا ایک اہم متبادل ذریعہ ہاتھ آ گیا۔ ضیا دور میں سینما گھروں پر ٹیکس کا شکنجہ بھی سختی سے کسا گیا۔ سینما گھر پہلے ویران ہوئے اور پھر ان کی جگہ پلازوں نے لے لی۔ اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے لاہور کے 99 میں سے 68 سینما گھر بند ہو چکے تھے، جن میں نشاط، فردوس، رتن، پیراماؤنٹ، ریگل، شمع اور نگار جیسے مشہور سینما ہاؤس بھی شامل ہیں۔ ملک بھر میں بند ہونے والے سینما گھروں کی تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ سو ہے۔
پنجابی فلمیں اور لالی وڈ
لالی وڈ کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے پنجابی فلموں کا ذکر کیے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ بابا جی اے چشتی کے انتہائی مدھر میوزک سے سجی پھیرے (1949) پاکستان بننے کے بعد پہلی پنجابی فلم تھی۔ ساٹھ کے عشرے میں لاہور نے اردو کی 364 اور پنجابی کی 163 فلمیں پروڈیوس کیں لیکن اسّی کے عشرے میں پنجابی فلمیں حاوی نظر آئیں۔ اس دوران سلطان راہی کی آسمان کو چھوتی مقبولیت کے سبب لالی وڈ میں اردو کی 223 فلموں کے مقابلے میں پنجابی کی 370 پکچرز ریلیز ہوئیں۔ مقامی زبانوں میں فلموں کا بکثرت بننا انتہائی خوش آئند بات ہے لیکن ”کنڈی نہ کھڑکا" جیسے کلچر کا کا جواز پیش کرنا ممکن نہیں۔ پنجابی فلموں کا سلطان راہی پر حد سے زیادہ انحصار بھی نقصان کا سبب بنا۔
’اقتصادی جبر‘
کراچی میں فلم سازی کے تیزی سے پنپتے ہوئے رجحان کو اکمل شہزاد گھمن 'اقتصادی جبر‘ سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے صحافتی کلچر پر میڈیا منڈی جیسی شاہکار کتاب کے مصنف ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''کراچی نجی ٹی وی چینلز کا مرکز بنا، وہاں مختلف ڈراموں کی پروڈکشن شروع ہوئی جن کی اقتصادی ضرورت کسی نہ کسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں سے جڑی تھی جن کے اپنے مرکزی دفاتر اسی شہر میں تھے۔‘‘ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے عہد حاضر کے ایک مشہور ڈرامے بلبلے کا ذکر کرتے ہیں جہاں نئے موبائل کا ذکر محض موبائل تک نہیں رہتا بلکہ اختصاص کے ساتھ اسے 'Q موبائل‘ کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جو ادارے ڈرامہ بنا رہے تھے فلم پروڈکشن بھی وہی کر رہے تھے سو ڈرامے کے ساتھ فلم انڈسٹری کا کراچی منتقل ہونا فطری عمل تھا۔
کراچی کی فلموں کا باکس آفس پر کامیابی سمیٹنا ان کی بات کی تائید کرتا ہے۔ اکیسویں صدی میں نمائش پذیر ہونے والی کامیاب ترین فلموں کی فہرست نکالی جائے تو ٹاپ ٹین میں لاہور کی ایک فلم بھی فلم شامل نہیں۔
فلم نہیں ٹیلی ڈرامے
کراچی کے نئے سینما میں بننے والی فلموں پر سب سے زیادہ تنقید یہ کی جاتی ہے کہ وہ فلم کم اور ٹیلی ڈرامہ زیادہ لگتی ہیں۔ سکرین پلے رائٹنگ کے موضوع پر پاکستان کے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر احمر سہیل بسرا اس کی بنیادی وجہ سکرین پلے رائٹر کا فلم کے بجائے ڈرامے سے قریب تر ہونا بتاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئے ڈرامہ نگاروں کی بڑی کھیپ ڈائجسٹوں کا پس منظر رکھتی ہے، جو فلم کے میڈیم سے واقف نہیں، جہاں انتہائی مختصر وقت میں امیجز کے ذریعے بہت کچھ سکرین پر پیش کرنا ہوتا ہے، ''ہمارے یہ ڈرامہ نگار فلم لکھتے ہوئے بھول گئے کہ ڈرامے کے برعکس چالیس منٹ بعد نہیں بلکہ ہر چار منٹ بعد کوئی ٹوئسٹ یا احساس بھرا امیج چاہیے ہوتا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کیونکہ فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی زیادہ تر ڈرامہ انڈسٹری سے نکلے اس لیے انہیں خود بھی احساس نہیں ہوتا اور سلسلہ چلتا جا رہا ہے۔
فلموں کا معیاری ہونا زیادہ ضروری ہے
فلم انڈسٹری لاہور کی ہو یا کراچی کی، اصل چیلنجز معیاری کام، پروڈکشن میں تسلسل اور سینما کلچر کی بحالی ہے۔ شوبز پر نصف درجن سے زائد کتابوں کے مصنف خرم سہیل ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بالی وڈ کے سحر سے نکلنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ''یہاں بننے والی فلموں کی کہانیاں اور رجحانات بالی وڈ فلموں کی بھونڈی نقل ہیں۔‘‘
وہ چند روز بعد عید پر ریلیز ہونے والی پانچوں پاکستانی فلمیں کا ذکر کرتے ہیں جو بالی وڈ سے شدید شدید متاثر دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ تقریبا دو دہائیوں سے کراچی فلمی صنعت کا مرکز ہونے کے باوجود پاکستانی سینما کو خاطر خواہ سہارا نہیں دے سکا، ''مقامی سینما مسلسل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور تاحال یہاں کے حالات دگرگوں ہیں۔ پاکستانی سینما تب ممتاز ہو گا جب وہ اپنے سماج کی کہانیوں کو پیش کرے گا۔‘‘
اردو زبان میں بننے والی فلموں کے حوالے سے کراچی نے پہلی مرتبہ لاہور کو اکیسویں صدی میں آ کر مات دی۔ 2010ءکے عشرے کے دوران لاہور میں اردو زبان کی 52 جبکہ کراچی میں 56 فلمیں تیار ہوئیں، جسے پاکستانی سینما کے احیاء سے تشبیہ دی گئی۔
’لاہور تو واپس آنا ہی ہو گا‘
یہ سلسلہ کب تک یونہی چلتا رہے گا اس بارے میں حتمی بات تو مشکل ہے لیکن اکمل شہزاد گھمن صاحب کا نقطہ نظر دلچسپ ہے۔ وہ کراچی فلم انڈسٹری کو سراہنے کے باوجود اس کی فضا کو مصنوعی بندوبست قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کی اِن ڈور شوٹنگز اور شہری زندگی کے مسائل سے جڑے محدود موضوعات بہت چلے تو پھر بھی کب تک چلیں گے۔ لوگ اکتا جائیں گے اور فلم انڈسٹری کو پھر سے لاہور کے بڑے بڑے سٹوڈیوز کا رخ کرنا پڑے گا۔