لاکھوں کی ہلاکت سے حوصلے پست نہیں ہوں گے، روہنگیا لیڈر
1 اپریل 2017روہنگیا مسلمانوں کے لیڈر عطا اللہ نے کہا ہے کہ وہ اُس وقت تک میانمار کی سکیورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے جب تک خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی روہنگیا کے تحفظ کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاتیں۔ عطا اللہ نے مزید کہا کہ وہ روہنگیا کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مرنے سے نہیں گبھرائیں گے۔
میانمار کے بعض مقامی حلقے اور روہنگیا افراد کی ایک محدود تعداد عطا اللہ کو لیڈر کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ عطا اللہ نے اُن الزامات کی نفی کی کہ انہیں غیرملکی حکومتوں یا دوسرے کئی ملکوں میں متحرک جہادی تنظیموں کا تعاون حاصل ہے۔ عطا اللہ کا واضح طور پر کہنا تھا کہ اُن کی مزاحمت اور کوششیں صرف بنیادی حقوق کے حصول پر مرتکز ہیں کیونکہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی بدھ مت کی پیروکار اکثریتی آبادی کے جبر کا سامنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار روہنگیا مسلمانوں کے لیڈر نے اپنے اولین آزادانہ طور پر دیے گئے انٹرویو میں کیا۔ یہ انٹرویو بذریعہ ویڈیو کال ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اِس میں روہنگیا لیڈر نے کہا کہ دس لاکھ مریں یا اِس سے زیادہ روہنگیا مسلمان اب اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے اور ایک ظالم فوجی حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھی جائے گی۔
اقوام متحدہ کی گزشتہ ماہ جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ہلاکتوں، اجتماعی زیادتیوں اور تشدد کو انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا تھا۔
دوسری جانب میانمار کی خاتون لیڈر آنگ سان سوچی کے ترجمان نے اس انٹرویو کے حوالے سے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور روہنگفیا مسلمانوں کے حملے کا فوری اور زور دار جواب دیا جائے گا کیونکہ دنیا بھر میں پرتشدد کارروائیوں کو کوئی حکومت برداشت نہیں کرتی۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروپ نے ’حرکۃ الیقین‘ کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم سن 2012 میں قائم کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس مزاحمتی تحریک کو قائم کرنے والے زیادہ تر روہنگیا مسلمان سعودی عرب میں مقیم ہیں۔