لاہور خود کش حملہ: تحقیقات شروع، سکیورٹی مزید سخت
17 فروری 2015پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں قلعہ گوجر سنگھ پولیس لائن کے آس پاس کے علاقوں میں پولیس نے ایک بڑا سرچ آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو سربمہر کر کے آنے جانے والوں کی تلاشی بھی لی جا رہی ہے۔ اس بم دھماکے کے بعد ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے تمام مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر اہم مقامات کی سکیورٹی مزید سخت کرنے کی ہدایات بھی جاری کر دیں۔
صوبائی دارالحکومت میں دہشت گردی کی اس نئی واردات میں خود کش حملہ آور کے علاوہ پانچ دیگر افراد کی ہلاکت کی تصدیق پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ نے بھی کر دی ہے۔ ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد چھ سے زیادہ ہے۔ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے 19افراد کو شہر کے مختلف ہسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس دھماکے میں جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کے لواحقین کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کی فوری امداد کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا نے صحافیوں کو بتایا کہ خود کش حملہ آور کا اصل ٹارگٹ پولیس لائن تھی لیکن سخت سکیورٹی کی وجہ سے وہ قلعہ گوجر سنگھ پولیس لائن میں داخل نہ ہو سکا اور اس نے خود کو پولیس لائن کے مرکزی گیٹ کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا۔ تاہم مشتاق سکھیرا کے پاس اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں تھا کہ حملہ آور سخت سکیورٹی اور چیکنگ کے باوجود اس گیٹ تک پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوا؟
سکیورٹی ذرائع کے مطابق خفیہ ادارے اس دھماکے کے حوالے سے اپنے خدشات سے پولیس حکام کو پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے۔ مسلم لیگ نون کے رکن صوبائی اسمبلی محسن لطیف کے مطابق یہ دھماکہ ناقص سکیورٹی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ خود کش حملہ آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہے۔
اس دھماکے میں قریب آٹھ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے کے حوالے سے سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج کے مطابق دھماکہ کرنے والے خود کش حملہ آور کی عمر بیس بائیس سال کے لگ بھگ تھی اور وہ اسٹیشن کی طرف سے آیا تھا۔
جس وقت یہ دھماکہ ہوا، اس وقت پنجاب بھر سے ایک ہزار کے قریب نوجوان پولیس میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے انٹرویو کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پولیس لائن کے اندر دھماکے والی جگہ کے قریب امیدواروں کی قطار میں کھڑا تھا کہ 12 بج کر 36 منٹ پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔
اس دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ در و دیوار ہل گئے۔ اس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ پولیس اہلکار کمروں میں جا کر چھپ گئے اور انہوں نے اندر سے کنڈیاں لگا لیں اور کچھ پولیس اہلکار دھماکے کی جگہ کی طرف چلے گئے۔ اس موقع پر ایمرجنسی الارم بجائے گئے اور پولیس اہلکاروں نے فائرنگ بھی کی۔ اس نوجوان نے تصدیق کی کہ دھماکے سے پہلے پولیس لائن کے مرکزی گیٹ پر سکیورٹی کے رسمی سے انتظامات تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دھماکہ میاں حمزہ شہباز شریف کے قومی اسمبلی کے حلقے میں اس علاقے میں ہوا جہاں قریب ہی ریڈیو پاکستان، امریکی قونصل خانے، کئی مشنری اسکولوں، حج سینٹر اور لاہور پریس کلب کی عمارات واقع ہیں۔
دھماکے کے بعد جائے حادثہ کے آس پاس کی تمام مارکیٹیں بند کر دی گئیں اور شہر میں حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کر دیے گئے۔ شہر میں پولیس کے مسلح دستے گشت کر رہے ہیں اور بعض اسکولوں کے قریب پولیس نے دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر سکیورٹی مشقیں بھی کی ہیں۔
پاکستان میں سکیورٹی امور کے ایک ماہر، کرنل (ر) فرخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں سکیورٹی کے بیشتر انتظامات ایسی وارداتوں کے بعد رد عمل کے طور پر ہی کیے جاتے ہیں حالانکہ بعض اہم مقامات پر لگے سکیورٹی آلات کی استعداد اور کارکردگی کو بھی دوبارہ چیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے بقول عام طور پر یہ آلات سکیورٹی ضروریات کے مطابق نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی شمولیت کے ساتھ سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانے اور دہشت گردوں کو کارروائی میں پہل کرنے سے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستانی صدر ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کی اس نئی ہلاکت خیز واردات کی شدید مذمت کی ہے۔