لاہور: ’لانگ مارچ‘ کا جلوس نواز شریف کی قیادت میں اسلام آباد روانہ
15 مارچ 2009اس سے قبل پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ نواز گروپ کے مطابق ان کی جماعت کے قائداور سابق وزیرِ اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو لاہور میں نظر بند کردیا گیاتھا تاہم پاکستانی حکومت نے اس بات کی تردید کیتھی۔
مشیرِ داخلہ رحمان ملک نے کہا تھا کہ نواز شریف آزاد ہیں اور جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ میاں نوازشریف پاکستانی وکلاء کی جانب سے ’آزاد‘ عدلیہ کی بحالی کے لیے پیر کے روز اسلام آباد کی جانب ’لانگ مارچ‘ سے قبل لاہور میں ایک جلوس کی قیادت کرنے والے تھے جس سے قبل ان کی رہائش گاہ کو رات گئے پولیس نے گھیرے میں لے لیا۔ دریں اثناء لاہور میں نکالے گئے جلوس کے شرکاء اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا ہے۔
دوسری جانب اطلاعات کے مطابق وکلاء تحریک کے مرکزی رہنما اعتزاز احسن کو بھی نظر بند کردیا گیا ہے۔ حزب ِ اختلاف کی جماعتوں اور وکلاء رہنماؤں کے مطابق ان کے بے شمار رہنماؤں اور سینکڑوں کارکنوں کو حکومت حراست میں لے چکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی راہ نما مخدوم جاوید ہاشمی کی گرفتاری کی بھی اطلاع ہے۔ حکومت نے کئی اور سیاسی لیڈروں کی نظر بندی کے پروانے بھی جاری کردیئے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف رواہلپنڈی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کے بحالیِ عدلیہ کے لیے پیر کے روز ایک ’لانگ مارچ‘ کی جا رہی ہے جس کے شرکاء اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے دھرنا دیں گے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسلام آباد اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کرکے کسی بھی طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی ہے۔
پاکستان میں معزول چیف جسٹس کی بحالی کے لئے وکلاء کا لانگ مارچ خاصی پیچیدہ صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ سارا ملک پولیس کنٹرول میں دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کے ساتھ ساتھ وکلاء کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت نے جماعت ِ اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی نظر بندی کے حکم بھی جاری کئے ہیں۔
حکومت کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو پابند نہیں کیا گیا ہے بلکہ اُن کی سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ نواز شریف کو پابند کرنے کے حوالے سے پنجاب حکومت نے ایک جواز یہ بھی پیش کیا تھا کہ خود کُش حملہ آور پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں لہذا وہ ریلی کو ملتوی کردیں۔
جواباً مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ایک بار پھز کہا ہے کہ ایسی پابندیوں کو توڑنے کا وقت آ گیا ہے اور وہ ہر صورت مارچ کے لئے باہر نکلیں گے۔
لاہور میں حکومت مخالف مظاہرے کو پولیس کارروائی کا نشانہ بننا پڑا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس کے ساتھ لاٹھی چارج کا بے دریغ استعمال کیا۔ یہ مظاہرہ شہر کی مرکزی شاہرہ پر جاری تھا۔ مظاہرے کا گڑھ جی پی او چوک اور لاہور ہائی کورٹ کا مرکزی گیٹ ہے۔
کچھ سیاسی راہ نماؤں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کے لئے راوالپنڈی پہنچ چکے ہیں۔ اُن میں شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ کئی روپوش سیاسی لیڈروں کی گرفتاری کے لئے پولیس چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکومتی سکیورٹی میں بے انتہا اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ اسلام آباد کو جانے والے ہر راستے پر بھاری سکیورٹی کا انتظام ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک اور مرکزی لیڈر خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ کا پیر کو لانگ مارچ کے سلسلے میں حکومتی رکاوٹوں کے باوجود عوام اور کارکن وکلاء کا ساتھ دینے کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے۔
موجودہ سیاسی بحران کے دوران کئی سرکاری افسروں نے سخت حکومتی ہدایات ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اب لاہور کے ڈی سی او سجاد بھٹہ کے بارے میں خبریں سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے اپنے فرائض سرانجام دینے سے معذوری ظاہر کردی ہے۔
پاکستانی میڈیا پر ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ دارالحکومت اسلام آباد میں دو دِن کے لئے موبائل ٹیلی فون سروس بند کردی گئی ہے۔ اسلام آباد میں سکولوں اور کالجوں میں بھی سرکاری چھٹی کا اعلان ہے۔ اِسی طرح دفاتر بھی امکاناً بند رکھے جا سکتے ہیں۔